عام انتخابات۔۔۔سمندر پار پاکستانیوں کی توقعات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تارکین وطن کا لفظ ان دنوں پاکستان میں بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے لیکن ہمارا مقصد ان تارکین وطن کے بارے میں ہے جو وطن عزیز کے معاشی استحکام کے چیلنج سے نبردآزما ہونے اور میرٹ پر اپنی صلاحیتوں کو منوانے کیلئے اپنے وطن سے ہجرت کرکے دوسرے ممالک میں جاکر ناصرف اپنے خاندان کی کفالت بلکہ ملکی معیشت کیلئے انتہائی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

پاکستان حقیقت میں خدا کا ایک معجزہ ہی ہے کیونکہ اپنے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کے حالات کو جس طرح قوت خداوندی نے سنبھالا ہے وہ یقیناً کسی معجزے سے کم نہیں ۔ ہماری تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود پاکستان قائم و دائم ہے اور انشااللہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا لیکن ہم کبوتر کی طرح آنکھ بند کرکے جان نہیں بچاسکتے اسی لئے عملی تگ و دو کرنا ضروری ہے۔

ملک میں عام انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کے اعلان کے باوجود معمہ بنا ہوا ہے، پیپلزپارٹی کو احتمال یہ ہے کہ اگر فوری الیکشن نہیں ہوتے تو شائد سندھ میں ان کا اثرو رسوخ کمزور پڑسکتا ہے اور الیکشن جیتنے کے لالے بھی پڑسکتے ہیں کیونکہ سندھ ڈیموکریٹک پارٹی مضبوط ہوسکتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نوازشریف الیکشن کے انعقاد کو مزید وقت کیلئے کوشاں ہیں تاکہ ان کے چھوٹے بھائی شہبازشریف کے دور میں ہونیوالی معیشت کی ابتر حالت کو لوگ بھول سکیں۔ پی ٹی آئی کی جلد سے جلد انتخابات کی خواہش ہے تو جمعیت علمائے اسلام التوا کے جواز تراش رہی ہے، صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی معیشت کو ہورہا ہے۔

پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت اور مسلم امہ کی امیدوں کا مرکز و محور ہونے کے بعد آج سنگین معاشی مسائل سے دوچار ہے، یہ حقیقت ہے کہ کئی بیرونی قوتیں پاکستان کو دگرگوں حالات سے دوچار رکھنے کی خواہشمند ہیں لیکن کچھ تو دوش اپنوں کا بھی ہے ۔

پاکستان کے معاشی حالات کی بادی النظر میں وجہ ڈالر کی کامیابی ہے کیونکہ دنیا کا نظم و نسق ڈالر سے چلتا ہے جو ہمارے خزانے سے دور ہے، ایسا نہیں کہ ہمیں ڈالر سے کوئی الرجی یا خدانخواستہ مسئلہ ہے لیکن نجانے کیوں سب کچھ ہونے کے باوجود ڈالر ہم سے دور دور کیوں بھاگتا ہے۔

شاید اس میں ہمارے مختلف ادوار کے حکومتی اکابرین کی اپنے لئے ڈالر بٹورنے کی مہم چاہے وہ کک بیک کے ذریعے ہو یا حکومتی خزانے پر حاوی ہونا، یہ ڈالر کی کمی کی اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ کچھ تو دوش اپنوں کا بھی ہے تو ہمارے پالیسی سازوں نے کبھی بھی گھر کیلئے کمانے والوں کو عزت سے نوازنے کی طرف دھیان ہی نہیں دیا بلکہ مال مفت دل بے رحم کے مصدق کرپشن سے بس اپنے بینک بھرنے تک ہی سوچ کو محدود رکھا۔

سادہ سی مثال سے دیکھیں تو جیسے گھر کا کفیل دن بھر مزدوری کرکے جب کچھ پیسے گھر لاتا ہے تو پھر گھر کا چولہا جلتا ہے، اسی طرح جب سمندر پار پاکستانی پیسے بھیجتے ہیں تو ہمارا نظام چلتا ہے۔

پاکستان میں صرف پیٹرولیم مصنوعات ہی نہیں بلکہ درجنوں چیزیں حتیٰ کہ گندم بھی بیرون ممالک سے منگوانی پڑ جاتی ہے اور اس کیلئے ہمیں ڈالر درکار ہوتے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل سری لنکا میں بھی یہ ہوا کہ ان کے سسٹم میں ڈالر نہیں تھا جس کی وجہ سے تیل نہیں ملا۔ شہری لاکھوں روپے ہاتھوں میں لے کر گھومتے رہے لیکن جب ایک چیز ہوگی نہیں تو آپ کو کیسے ملے گی۔

پاکستان کو جب بھی کوئی مشکل پیش آئی، ہمیشہ سمندر پار بسنے والے پاکستانیوں نے اپنے دل کھول کر مدد کی لیکن افسوس کہ ہمارے سسٹم کی خرابی کی وجہ سے بیرون ممالک بسنے والے پاکستانیوں کو سفارتخانوں میں حقارت اکثر برطانوی دور کے راج کی طرح رعایا کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے مسائل کو زیادہ ترجیح نہیں دی جاتی۔

اگر ہم بھارت پر نظر ڈالیں تو بھارت کے 3 کروڑ سے زیادہ رجسٹرڈ شہری دنیا بھر میں مقیم ہیں جبکہ پاکستان کے تقریباً 90 لاکھ کے قریب شہری بیرون ممالک خدمات انجام دے رہے ہیں اور بھارت نے اپنے سمندر پار شہریوں کو اس انداز سے پروان چڑھایا کہ وہ امریکا اور کینیڈا جیسے بااثر ممالک میں بھی اپنی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے بلکہ بھارت کیلئے سفیر کے طور پر لابنگ بھی کرتے رہے تاہم پاکستانی تارکین وطن کو موقع نہیں دیا جاتا اور ایسے حالات نہیں پیدا کئے جاتے کہ وہ وطن عزیز کیلئے اُس طرح کی کوششیں اور کاوشیں کرسکیں جیسے بھارت ودیگر ممالک کے لوگ کرتے ہیں۔

راقم الحروف بطور سفیر متحدہ عرب امارات میں خدمات کے دوران زرمبادلہ پاکستان بھیجنے والے تارکین وطن کو عزت و تکریم سے نوازنے کے فارمولے پر عمل کرکے خاطر خواہ نتائج حاصل کرچکا ہے جس پر ابھی بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔

ہم نے اپنی گزشتہ کئی تحاریر میں زرمبادلہ کے ذخائر فوری بڑھانے کیلئے اہم تجاویز پیش کیں، ابھی بھی سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کیا جاسکتا ہے۔ چاروں صوبوں میں زرعی زمینوں کو فارم کی شکل میں تبدیل کرکے ایف ڈبلیو او جیسے فعال ادارے کو ساتھ ملاکر سمندر پار پاکستانیوں دیا جاسکتا ہے۔

ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے افریقی ممالک میں کپڑے، ادویات، کھلونے، خوراک، خیمے، بسکٹس، چاکلیٹ اور دیگر مصنوعات فروخت کی جاسکتی ہیں جو وہاں کے مقامی لوگوں کی اشد ضروریات میں شامل ہے۔

سنگل کنٹری نمائش کیلئے پیسہ خرچ کیے بغیر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں اور اس کیلئے اپنے سفارت خانوں کے احاطوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سے چھوٹے تاجر بھی بہت خوش ہوں گے کہ وہ اپنی مصنوعات براہِ راست بیچ کر ڈالرز کما سکیں گے۔

وطنِ عزیز سے محبت رکھنے والے پاکستانی پوری دنیا میں موجود ہیں جن کی تعداد 1 کروڑ ہے جن کیلئے سہولیات پیدا کی جانی چاہئیں تاکہ وہ اپنی فیملی کو ڈالرز کی صورت میں رقوم بھیجیں۔ وہ ڈالرز ہمارے زرِ مبادلہ ذخائر کو بڑھاوا دیں گے۔ اس کیلئے ڈالرز پاکستان میں قانونی طریقے سے بھیجنے والوں کی پذیرائی کرنا ہوگی۔

سفارت خانے ایسے سمندر پار پاکستانیوں کو سرٹیفکیٹ اور اسناد سے نوازیں جو پاکستان میں قانونی طریقے سے رقوم روانہ کرتے ہیں۔ اگر پیریٹی لون 10 سے 20 فیصد دینا ہو تو حکومت وہ بھی دے سکتی ہے جس سے حکومت کو بھی منافع حاصل ہوگا۔ منافع روپے میں بھی دیا جاسکتا ہے جس سے اوور سیز پاکستانیوں کی دلچسپی کا سامان مہیا ہوگا۔

ہمارے پاس بنجر زمینیں وافر مقدار میں موجود ہیں جیسا کہ حال ہی میں ہم نے سعودی عرب اور متحدہ امارات کو لاکھوں ایکڑ زمین کا کثیر رقبہ دینا شروع کیا ہے، اسی انداز میں سمندر پار پاکستانیوں کیلئے کارپوریٹ فارمنگ کی طرز پر اگر ایسی اسکیمیں تربیت دی جائیں تو تارکین وطن ڈالرز کے ذریعے معیشت کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔

رئیل اسٹیٹ سیکٹر بشمول ملک ریاض جیسے ذرائع جنہوں نے ملکی وسائل کو پوری طرح استعمال کیا ان کو بھی آگے آنا ہوگا اور تارکینِ وطن جو گلف کنٹریز میں ہیں، مختلف علاقوں کی پہچان کرکے انہیں کم قیمت پرحاصل کرکے اسکیمیں دی جائیں جو صرف فارن ایکسچینج میں بک ہوں اس کے علاوہ اور بھی ایسے بہت سے مواقع ہیں جن کا استعمال کرکے ہم اربوں ڈالرز کماسکتے ہیں۔

Related Posts