پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہر سال 16 اکتوبر کو قوم پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کے دستِ راست، شہیدِ ملت لیاقت علی خان کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔

شہیدِ ملت لیاقت علی خان یکم اکتوبر کو کرنال میں پیدا ہوئے جو 1895ء کے دوران برطانوی راج میں موجودہ بھارت کا صوبہ پنجاب تھا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ چلے گئے۔

نئی مملکتِ خداداد پاکستان میں قائدِ اعظم کے بعد اگر کوئی شخص اثر رسوخ رکھتا تھا تو وہ لیاقت علی خان تھے، تحریکِ آزادئ پاکستان میں لیاقت علی خان کا کردار بے حد اہم ہے۔ 1943ء میں قائدِ اعظم نے انہیں اپنا دستِ راست نامزد کیا اور لیاقت علی خان اس امتحان میں سرخرو رہے۔ 

قائدِ اعظم نے 1936ء میں لیاقت علی خان کو آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا۔لیاقت علی خان نے آزادی سے 10 سال قبل پارٹی معاملات اور سرگرمیوں میں بے حد اہم اور فعال کردار ادا کیا۔

بطور تجربہ کار قانون ساز 1927ء سے لیاقت علی خان نے متحدہ صوبوں کی اسمبلی میں ممبر بن کر کام کیا ور 1941ء سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے جہاں وہ قائدِ اعظم کے ڈپٹی کا کردار بھی ادا کرتے رہے۔ 1946ء اور 1947ء کے درمیان لیاقت علی خان تقسیم سے قبل متحدہ بھارت کی نگراں حکومت کے وزیرِ خزانہ بھی رہے۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے قائدِ اعظم نے انہیں پاکستان کا پہلا وزیرِ اعظم بنانے کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا تھا۔

کرنال کے نواب کے طور پر لیاقت علی خان نے اپنی زمین پاکستان کیلئے قربان کردی۔ قائدِاعظم کے ساتھ ساتھ لیاقت علی خان بھی ایسے ہی باکردار سیاستدان تھے جو سیاست کو عوام کی خدمت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی موجودہ نسل قربانی اور وقار سے زیادہ خود کو امیر سے امیر تر بنانے کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔

یہ بات کبھی دیکھنے میں نہیں آئی کہ شہیدِ ملت لیاقت علی خان نے اپنی جاگیریں اور دولت بھارت میں چھوڑ کر پاکستان کیلئے ہجرت کرنے پر کبھی کسی پچھتاوے کا اظہار کیا ہو تاہم تین بار مسلسل پاکستان کے وزیرِ اعظم رہنے والی ایک شخصیت سے حال ہی میں یہ سوال کیا گیا کہ انہوں نے دولت کس طرح جمع کی؟ جبکہ وہ 30 سال سے زیادہ عرصےتک اہم عوامی عہدے پر فائز رہے۔

خان لیاقت علی خان کو برصغیر پاک و ہند میں آزاد مسلم ریاست بنانے کا اتنا جنون تھا کہ آپ کسی بھی حیثیت سے نوزائدہ مملکت پاکستان کی خدمت کیلئے تیار تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں پاکستان کو چپراسی کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات پیش کروں تو میں ملک کا سب سے قابلِ فخر شخص ہوں گا۔ آج آپ ان کا موازنہ موجودہ سیاستدانوں سے کیجئے جنہوں نے پاکستان کیلئے کچھ قربان نہیں کیا بلکہ خود کو صرف نیلسن منڈیلا کے طور پر پیش کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں جس سے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ منتخب منصب سنبھال کر ہم پر کوئی احسان کر رہے ہیں۔

صرف لیاقت علی خان نے نہیں بلکہ ان کی اہلیہ رعنا لیاقت علی خان نے بھی آزادی کے وقت مادرِ وطن کیلئے ایک اور قربانی دی۔ انہوں نے اپنی وسیع و عریض دہلی کی رہائش گاہ پاکستان کو دے دی جو مستقل سفارتی رہائش گاہ قرار پائی اور اس کا نام آگے چل کر پاکستان ہاؤس رکھ دیا گیا۔ کیا ہمارے دور کے نیلسن منڈیلا اور جمہوریت کے نام نہاد علمبردار پاکستان کیلئے ایسی بڑی ذاتی مالی قربانی دینے کا سوچ بھی سکتے ہیں؟

ایک نئے ملک کے شہریوں کو درپیش مالی مشکلات کا خوب اندازہ رکھتے ہوئے لیاقت علی خان نے سادہ ترین زندگی بسر کی تاکہ دیگر شہری بھی ان سے سبق حاصل کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک غریب ملک کا وزیرِ اعظم نئے کپڑے، شاہانہ کھانے اور ذاتی گھر رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، جبکہ ہم کبھی بھی موجودہ دور کے جمہوریت کے چیمپینز کو طاقت یا فائدے کی قربانی دیتا ہوا نہیں دیکھتے، جو حقیقت کا دوسرا رخ ہے۔

ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کا حق تھا کہ انہیں پاکستان میں کم از کم ایک مکان تو دے ہی دیا جاتا لیکن لیاقت علی خان نے وسیع و عریض جائیدادیں تو بھارت میں چھوڑ دیں مگر اپنے لیے ایک بھی مکان لینے سے اس وقت تک سختی سے انکار کردیا جب تک کہ تمام تارکینِ وطن کو مکانات الاٹ نہ ہوجائیں۔ سفیر جمشید مارکر کے مطابق جب وزیرِ اعظم ہاؤس میں انہیں اور اہلیہ کو دوپہر کے کھانے کیلئے بلایا گیا تو کچھ دیر بعد ہی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان غصے میں وہاں آئے، عموماً وہ اپنے غصے میں بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن اس دن انہوں نے جمشید مارکر سے کہا کہ یہ لوگ مجھے پاکستان میں بھارت میں چھوڑی گئی جائیدادوں کے بدلے جائیدادیں دینے کی بات بھی کیسے کرسکتے ہیں؟ وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے جمشید مارکر سے کہا کہ جب تک کہ کراچی میں کھلے آسمان تلے موجود تمام مہاجرین کو پناہ گاہ نہیں دی جاتی، مجھے بھی کوئی گھر نہ دیا جائے۔

سن 1948ء میں 11 ستمبر کے روز قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وفات کے ساتھ ہی بھارت نے حیدر آباد دکن پر قبضہ کر لیا۔ قوم بے حد سوگوار تھی کیونکہ بھارت مستقل جارحیت پر آمادہ تھا، بانئ پاکستان خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے اور پاکستان کو اسلحے اور مسلح افواج کی کمی کی صورت میں بڑے دفاعی بحران کا سامنا تھا، لیکن لیاقت علی خان نے انتہائی جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ اگر پاکستان پر کوئی حملہ کیا گیا تو میں، میرے ساتھی اور ہر پاکستانی وطن کی دھرتی کے ایک ایک انچ کی حفاظت کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کیلئے تیار ہیں۔ یہ وہ جملے تھے جن سے پاکستانی قوم میں کمزور پڑتا ہوا اعتماد زندگی کی طرف لوٹ آیا۔

آخری روز یعنی 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں جب لیاقت علی خان شہید ہو رہے تھے، انہوں نے 3 بار کلمۂ طیبہ کا ورد کیا جبکہ ان کے آخری الفاظ یہ دُعا تھی کہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔ جب وہ دُنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے پاس صرف 500 روپے موجود تھے، بینک اکاؤنٹ میں محض 16 روپے جبکہ کوئی ایسا گھر نہیں تھا جو ملک کے وزیرِ اعظم کے نام پر موجود ہو۔ ایک نواب کی زندگی گزارنے والا شخص پاکستان کی خدمت کرتے ہوئے غریب انسان کے سے اختتامِ حیات سے دوچار ہوا۔

استحکامِ پاکستان کیلئے لیاقت علی خان نے خصوصاً قائدِ اعظم کی وفات کے بعد اور پاکستان کو صنعتی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے اہم خدمات سرانجام دیں۔ نیز، پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے ان کے اقدام نے ناقدین کی زبانیں بند کردیں۔ شہیدِ ملت قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کے آزادی کے خواب اور نظریہ پاکستان پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ وہ ایک عظیم رہنما اور قابلِ فخر انسان تھے۔ وطنِ عزیز پاکستان کو آج تعمیر و ترقی کیلئے اور قوم کو عظیم اور ناقابلِ تسخیر بننے کیلئے لیاقت علی خان جیسے ہی بہت سے رہنماؤں کی آج بھی ضرورت ہے۔ 

 

Related Posts