پہلی کمپیوٹنگ سسٹم اینڈ ایپلیکیشنز کانفرنس، تھر میں ٹیکنالوجی انقلاب یقینی ہے۔سروش لودھی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پہلی کمپیوٹنگ سسٹم اینڈ ایپلیکیشنز کانفرنس، تھر میں ٹیکنالوجی انقلاب یقینی ہے۔سروش لودھی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تھر میں پہلی کمپیوٹنگ سسٹم اینڈ ایپلیکیشنز کانفرنس کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر سروش لودھی کا کہنا ہے کہ تھر میں ٹیکنالوجی انقلاب یقینی ہے۔

تفصیلات کے مطابق جامعہ این ای ڈی کے تھر انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیرِ اہتمام آرٹیفشل انٹیلیجنس کے موضوع پر 2 روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت شیخ الجامعہ این ای ڈی پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی نے کی۔

سی ای او شپش پیئر ارسلان احمد اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر گلاسگو یونیورسٹی قمر عباسی، میٹا ٹیلنٹ کے ایگزیکٹوز ریحان، قذافی اور ڈاکٹر ایرج نے کی۔نوٹ اسپیکر کی حیثیت سے شرکت کی۔ کانفرنس کا مقصد تھر پارکر میں کمپیوٹنگ سسٹم اور اپلیکیشنز کا فروغ ہے۔

اس موقعے پر خطاب کرتے ہوۓ شیخ الجامعہ ڈاکٹر سروش لودھی اور چیئرمین آئی ای پی سہیل بشیر کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کا مطلب ہے خود کار ہونا، جو دراصل مشینوں کو یہ صلاحیت بخشتا ہے کہ وہ خود انسانوں کی طرح سوچیں، سمجھیں اور  فیصلے کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ نئی ٹیکنالوجی بہت ہی حیرت انگیز ہے اور انجینئرنگ سمیت کئی شعبوں میں انقلاب لاسکتی ہے۔ شیخ الجامعہ نے کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر تھر انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل ڈاکٹر ناصر الدین شیخ، این ای ڈی کے ڈین ڈاکٹر سعد قاضی اور دیگر کو سراہا۔ 

شیخ الجامعہ نے چیئرمین شعبہ کمپیوٹر(تھر) ڈاکٹر عباس علی، ڈاکٹر ماجدہ کاظمی اور ڈپٹی رجسٹرار مخدوم خالد ہاشمی سمیت تمام ٹیم کی کاوشوں کی تعریف کی۔ اس موقعےپر کی-نوٹ اسپیکرز کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ابھرتی ٹیکنالوجیز تک رسائی کی بھرپور حمایت کرنا ہوگی۔

کی۔نوٹ اسپیکرز نے نوجوان طلبہ و طالبات کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ اے آئی کی مدد سے ہم انسان کے ذہن کی صلاحیت کو بھی پَر لگا سکتے ہیں۔اس موقعے پر دیگر اساتذہ نے بھی خطاب کیا جن میں پروفیسر سعد قاضی اور ڈاکٹر شہنیلہ زرداری شامل ہیں۔ 

 ڈاکٹر نسیم، ڈاکٹر جواد شمسی، ڈاکٹر علی اسماعیل، ڈاکٹر ثمن حنا، ڈاکٹر نجید احمد، انجینئر فاروق عربی، انجینئر ایاز مرزا، ڈاکٹر احسان احمد، ڈاکٹر شارق محمود، ڈاکٹر مبشر خان اور ڈاکٹر ماجدہ کاظمی کا کہنا تھا کہ پاکستانی نوجوان مصنوعی ذہانت پر کام کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 

اساتذۂ کرام کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کو تیز کرنے میں مددگار بھی ثابت ہوگی لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانونی فریم ورک کی کمی ہے جس پر پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔

کانفرنس کیلئے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوۓ پرووائس چانسلر سندھ یونیورسٹی لاڑ کیمپس بدین ڈاکٹر خلیل کمباٹی، پرنسپل تھر انسٹی ٹیوٹ ناصر الدین شیخ اور چیئرمین شعبہ کمپیوٹر انجینئرنگ ڈاکٹر عباس علی نے اے آئی ٹیکنالوجی کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی۔

مقررین نے کہا کہ اے آئی جیسی اہم ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ شعبوں میں استعمال کر کے زندگی کو سہل بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے شعبہ وار استعمال اور ترقی کے لیے کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اعلیٰ مہارت رکھنا بنیادی مرحلہ ہے۔ اے آئی بہت بڑے ڈیٹا کو بھی بآسانی سموسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی نئے ٹرینڈز کی نشان دہی کرتے ہوئے مناسب تجاویز دے سکتی ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر ماہرین کو تھر انسٹی ٹیوٹ کی 340 ایکڑ اراضی کا دورہ بھی کروایا گیا جہاں شعبہ سول اور میکینکل انجینئرنگ کی عمارات تیزی سے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔

Related Posts