ریاستی اداروں کی رسہ کشی اور ملکی معیشت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک بھر میں سیاسی و معاشی مسائل ، عدل و انصاف کا نظام اور تعلیم سے لے کر صحت و صفائی اور داخلہ و خارجہ امور سے لے کر اقتصادیات تک ہر شعبے میں تنزلی کا رجحان غالب ہے۔
 
صرف 2 روز میں سپریم کورٹ کے 2 ججز نے استعفیٰ دے دیا جس سے عدالتِ عظمیٰ میں کم از کم 3 ججز کی کرسیاں خالی ہوگئیں۔ سپریم کورٹ میں ایک اسامی تو پہلے ہی خالی تھی جبکہ مستعفی ججز پر مختلف تجزیہ کاروں کی جانب سے تنقید بھی کی جارہی ہے اور اس سے قبل سپریم جوڈیشل کونسل میں جب جسٹس مظاہر نقوی کا استعفیٰ پڑھ کر سنایا گیا اور اس پر چیف جسٹس نے جو ریمارکس دئیے، اس سے بھی سپریم کورٹ کے عہدیداران کے مابین کسی قدر کشمکش کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
 
توجہ طلب امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں 30 جون 2023 تک زیر التوا مقدمات کی تعداد 54 ہزار 965 تھی جبکہ سیاسی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی مسائل میں داد رسی کیلئے بھی سپریم کورٹ سے آس لگائی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے خلاف بوگس انٹرا پارٹی الیکشن پر ایکشن لیااور بلے کے نشان کا یہ کیس آج سپریم کورٹ میں ہے۔
 
جب ہرشعبہ زندگی کے کیسز عدالت جا پہنچتے ہیں تو عدالت کی جانب سے ان کیسز پر ریمارکس بھی سننے کو ملتے ہیں اور ججز پر عوام کی بڑی تعداد ، سیاسی پارٹیاں اور بعض اوقات کچھ اداروں کے سرکردہ افراد تنقید بھی کرسکتے ہیں اور ججز بھی انسان ہوتے ہیں، فیصلوں میں غلطیاں ان سے بھی ہوجایا کرتی ہیں اور ساتھی ججز بھی ان پر اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
 
جب ملکی ادارے قانون پر عمل نہ کریں تو ریاست کی رٹ بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے۔عدالت کے حکم کے باوجود الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر پی ٹی آئی کا پارٹی سرٹیفکیٹ شائع نہیں کیا جبکہ الیکشن کمیشن کو ہائیکورٹ کے فیصلے کی قدر کرنی چاہئے تھی، اگر ملکی ادارے ہی آپس میں دست و گریباں ہوجائیں اور عدلیہ کے احکامات کو نظر انداز کیا جائے تو ملک میں قانون و انصاف کی حکمرانی کاکیا ہوگا؟
 
دوسری جانب ملکی معیشت کی صورتحال بھی دگرگوں ہے اور ملک کی کسی سیاسی پارٹی کے ایجنڈے میں معیشت کو بہتری کی جانب لے جانے کا کوئی فارمولا موجود نہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتیں اس معاملے کو کوئی اہمیت دے رہی ہیں جو عام شہریوں کیلئے بے حد تشویش کی بات ہے۔ سرکاری اداروں کی جانب سے معاشی وسائل کا بے دریغ استعمال جاری ہے جہاں خسارہ ہی خسارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
 
اگر ہم سرکاری اداروں کے مجموعی خسارے کی بات کریں تو 1.4ٹریلین روپے کا خسارہ ہوا جس میں 600 بلین کا خسارہ پی آئی اے اور 422بلین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا خسارہ شامل ہے۔ افراطِ زر کی شرح 29.7فیصد تک جا پہنچی۔ ٹیکس جی ڈی پی تناسب 10فیصد تک گر چکا ہے۔ ملک کے 2کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ہماری شرحِ خواندگی 40فیصد ہے جبکہ ملک کی 64فیصد آبادی کی عمر 30سال سے کم ہے اور یہ وہ نوجوان ہیں جنہیں تعلیم کی تکمیل کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے ایک بھاری شرحِ بے روزگاری کا سامنا ہے۔
 
لندن کی معروف فرم ہینلے گلوبل کے مطابق تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ کو حال ہی میں دنیا کا چوتھا بدترین پاسپورٹ قرار دیا گیا جو بہترین عالمی پاسپورٹس کی فہرست میں 101 ویں نمبر پر ہے۔
 
زراعت و صنعت سے لے کر تجارت اور آن لائن کاروبار تک ملک کا ہر شعبہ ملکی کرنسی کے استحکام کا محتاج ہے۔ گزشتہ کچھ عشروں سے پاکستانی روپے کی قدروقیمت مسلسل گرتی ہوئی نظر آتی ہے اور آئی ایم ایف سے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر قرض کی قسط ملنے کے بعد ملکی کرنسی میں کچھ وقت کیلئے جو استحکام نظر آئے گا، وہ مصنوعی ہوگا۔
 
سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو سود کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی سخت شرائط بھی تسلیم کرنی پڑ رہی ہیں جس کے نتیجے میں ایک عام شہری کے کاندھوں پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا جارہا ہے، ٹیکس کے ذریعے ملکی آمدن میں اضافہ دراصل عوام پر ظلم کے مترادف ہے ، لیکن حکومت کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل بھی نہیں۔
 
حد یہ ہے کہ پاکستان کو قرض اور سود کی ادائیگی کیلئے بھی مزید قرض لیناپڑ رہا ہے۔ دوست ممالک سے قرض لینے پر بھی سود کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے ، یوں قرض در قرض سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ملک نسل در نسل اور عوام کا بال بال قرض میں ڈوبتا چلا جاتا ہے ۔ زندگیاں ختم ہوتی جارہی ہیں اور قرض ختم ہونے میں نہیں آتا، بقول شاعر:
 
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہوگیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہوگیا
 
سیاسی جماعتوں کو عوام کے مسائل کا ادراک اور انہیں حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی کہ قرض کی ادائیگی کیلئے ٹیکس کی بجائے کاروبار ، سرمایہ کاری اور سیاحت و زراعت جیسے شعبہ جات کو فروغ دے کر ملکی مسائل کا حقیقت پر مبنی حل نکالا جاسکے۔ شاید یہی مملکتِ خداداد پاکستان کے مسائل کا درست حل ثابت ہوسکے۔

Related Posts