معیشت سیاسی مفادات کی نذر!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

چند سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ لیڈران عوام سے یہی کہتے ہوئے نظر آئے کہ ہم ایماندار ہیں دوسرے چور ہیں، دوسرے نے قرضوں کے بوجھ تلے ملک کو دبا دیا ہے، ہم ان قرضوں کے بوجھ سے آپ کو نکالیں گے، غربت ختم کریں گے، آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر مستقبل لے کر آئیں گے، مگر اب جو بیانات پس منظر کے نظر آرہے ہیں، جو مختلف آڈیو، ویڈیو لیکس سے پتہ یہ لگ رہا ہے کہ معیشت کے لئے کام کم کیا گیا اور اپنے اپنے سیاسی مفادات کے چکر میں پاکستانی عوام کو آپس میں تقسیم کرکے اُن کی حالت بد سے بدتر کردی گئی۔

کیا کسی سیاسی شخصیت نے پاکستان کی معیشت کے لئے کوئی اکنامک ماڈل بنایا؟ کیا کوئی اکنامک پلان نظر آیا؟ جس کی بناء پر وہ یہ دعویٰ کرسکے کہ پاکستان کی معیشت آنے والے دنوں میں بہتر ہو پائے گی؟ صرف وعدے اور لاروں سے کسی بھی ملک میں بہتری اور ترقی نہیں آتی، پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے سب سے پہلا کام پاکستان کے خزانے کو بہتر کرنا ہوگا، پاکستان کے خزانے کو بہتر کرنے کے لئے پاکستانی عوام کے پاس پیسے کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔

پاکستان میں پیسہ صرف چند مخصوص بڑے لوگوں میں اور سیاست دانوں میں تقسیم ہوتے ہوئے دکھائی دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہی خاندانی کاروباری لوگ اور وہی خاندانی سیاست دان پچھلے 70 سالوں سے نمایاں طور پر نظر آتے ہیں اور اُنہی کو فائدہ پہنچانے کے لئے سیاسی ماہرِ معاشیات رکھے جاتے ہیں، آج تک کسی نے پاکستان کی بجلی کی قیمتوں میں کمی کے بارے میں نہ کہا ہے اور نہ کام کیا ہے، بجلی کی قیمتیں ہمیشہ سے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے نظر آئیں اور بجلی گھروں نے ہمیشہ سے پاکستان کو ایک بجلی کے بحران میں رکھا ہے۔ تاکہ پاکستانی عوام قیمتوں پر گفتگو کرنے سے پہلے بجلی کی فراہمی بات کرے۔

جب عوام بجلی فراہمی کی بات کرتی ہے تو قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں اور جب قیمتوں کو گٹھانے کی بات کرتے ہیں تو بجلی کا بحران پیدا کردیا جاتا ہے، معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ٹیرفوں کے اوپر جو کھیل ہے وہ ختم کرنا پڑے گا، دوسرا مسئلہ پاکستان کا پانی کی فراہمی کا ہے، پاکستان میں ہر سال مون سون آتا ہے، پہاڑی علاقوں میں برف باری ہوتی ہے، گلیشیئر پگلتے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم آج تک ہم پانی کی نہ صحیح معنوں میں تقسیم کرسکے ہیں اور نہ ہی ہم نے پانی کے ذخیروں کے لئے کوئی کام کیا ہے۔

1960سے لے کر 1970تک جو ڈیم بنے ہیں وہی آج تک پاکستان کے کام آرہے ہیں، اگر ہم پانی کی صحیح فراہمی اور صحیح معنوں میں اُس کو محفوظ کرنے کے لئے کام کریں تو پاکستان کی ذرخیز زمین بہت سے پھل اور سبزیاں اُگا سکتی ہے جو پاکستانی عوام کے لئے کم قیمت پر غذائیں قلت کو پورا کریگی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ایکسپورٹ کے ذریعے بہت بڑی رقم معیشت کے لئے کما جاسکتی ہے۔

تیسرا ہمارا مسئلہ بچوں کی تعلیم کا ہے، سرکاری اسکولوں کو تباہ کیا گیا تاکہ پرائیویٹ اسکولوں کی من مانی فیسیں عوام ادا کریں، تعلیم اس حد تک مہنگی ہوچکی ہے کہ ہر انسان اپنی کمائی کا اچھا خاصہ بڑا حصہ اس پر خرچ کرتا ہے، مگر پھر بھی اُسے معیاری تعلیم نہیں ملتی، معیاری تعلیم کا مطلب کہ پاکستان کی مستقبل کی عوام پڑھی لکھی ہوگی اور پاکستان میں تعلیم یافتہ لیبر، ورکر دستیاب ہوسکیں گے، تعلیم یافتہ ورکر نہ صرف پاکستان کے لئے سود مند ہوں گے،بلکہ باہر کے ممالک کے لوگ بھی انہیں نوکریاں دیتے ہیں اور انہیں لوگوں کے باعث باہر کے ممالک سے ریمیٹنس کی وجہ سے پاکستان کے خزانے میں اضافہ ہوتا ہے۔

مسائل کے اسی انبار میں ایک اور سب سے بڑا مسئلہ انسانی صحت کا ہے، پاکستان میں دوا ساز کمپنیاں زیادہ تر بین الاقوامی ممالک کی ہیں جس کے باعث دوائیوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، اگر حکومتی سطح پر دوائیوں کی کمپنیاں بنائی جائیں گے تو دوائیوں کی قیمتوں کی کمی سے انسان کی صحت کے اوپر جو اخراجات آتے ہیں وہ بہت کم ہوجائیں گے، سرکاری اسپتالوں کو بہتر کرنے کے بجائے ہم نے انشورنس کمپنیوں کو بے تحاشہ پیسہ دیا، تاکہ عوام کو مفت علاج کی سہولت میسر ہوسکے۔

مگر در حقیقت وہ مفت نہیں تھا وہ پیسے جو انشورنس کمپنیوں اور اسپتالوں کو حکومت دے رہی ہے تو ہماری ہی عوام کے ٹیکسز سے لیا جارہا تھا اور سیاسی بیانیہ دیا جارہا تھا کہ غریبوں کو مفت علاج دیا جارہا ہے، جس کے باعث حکومت کے خزانے سے اربوں روپیہ لیا گیا اور اُسی اربوں کی وجہ سے دودھ کے ڈبوں سے لے کر پیٹرول کی قیمت تک کے ٹیکسز کو بڑھایا گیا، یاد رکھئے گا حکومت جو بھی کام کرتی ہے وہ ہمارے اور آپ کے ٹیکس سے جمع ہوئی رقم سے کرتی ہے، مگر تعریفوں کا پل وہ اپنی سیاسی پارٹی کے نام کردیتی ہے، میں چاہتا ہوں کہ پاکستان میں آپ اُن لیڈروں کو تلاش کریں جو کاروباری پالیسیز بنائیں جس کی وجہ سے عوام کو فائدہ حاصل ہو نا کہ مخصوص سیاسی اور کاروباری طبقے کو۔

Related Posts