کیا آپ تعلیمی اداروں کے لیے وزیراعظم کے یکساں نصاب تعلیم کی حمایت کرتے ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا آپ تعلیمی اداروں کے لیے وزیراعظم کے یکساں نصاب تعلیم کی حمایت کرتے ہیں؟
کیا آپ تعلیمی اداروں کے لیے وزیراعظم کے یکساں نصاب تعلیم کی حمایت کرتے ہیں؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز یکساں نصاف تعلیم کے پہلے مرحلے کا افتتاح کردیا تھا۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ یکساں نصاب لانے کا مقصد ملک بھر میں تعلیمی نظام میں جاری تقسیم کو ختم کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک قومی نصاب کا مقصد ‘سب کے لیے ایک نظام تعلیم’ ہے۔

یکساں نصاب تعلیم کیا ہے؟

پرائمری گریڈ کے طلباء کے لیے ملک کو ایک متحد قوم بنانے کے لیے یہ ایک منفرد آئیڈیا ہے۔ اس کے ذریعے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں اور دینی مدارس کے طلبہ اب مختلف نصاب نہیں پڑھیں گے۔

یہ 2018 میں تجویز کردہ وزیر اعظم عمران خان کی پالیسی کا حصہ تھا۔ یکساں قومی نصاب (ایس این سی) یکساں نظام قائم کرے گا۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہوگا جہاں سے تمام تعلیمی اداروں کے بچوں کو یکساں ترقی کے مواقع میسر آئیں گے۔ اور وہ ایک جیسی اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔

ایس این سی کے مراحل

ایس این سی کا پہلا مرحلہ مارچ 2021 میں شروع کیا گیا تھا اور اس میں پرائمری اسکول کے طلباء کو شامل کیا گیا ہیں۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں کلاس 6 سے 12ویں تک کی کلاسز کا احاطہ 2023 تک کیا جائے گا۔

ملک کے کن کن حصوں پر عمل درآمد ہوا ہے؟

یہ نصاب پہلے ہی خیبر پختونخوا ، پنجاب ، بلوچستان ، آزاد جموں ، اور کشمیر اور گلگت بلتستان میں نافذ کیا گیا ہے جبکہ سندھ حکومت نے ابھی اس عمل کرنے سے انکار کردیا ہے۔ نئے تعلیمی نصاب کو تمام سرکاری ، نجی اسکولوں اور مدارس میں ایک ساتھ لاگو کیا جائے گا۔

کیا پاکستان میں SNC کا نفاذ ممکن ہے؟

وزیر اعظم کی جانب سے ایس این سی کو مدارس میں نافذ کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی اس تجویز پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔ تاہم اگر اس نصاب کو مدارس نے قبول کرنے کرنے سے انکار کیا تو یہ ریاست کی خود مختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہوگا اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی کوششوں کو زک پہنچے گی۔

وفاقی وزارت تعلیم کے مطابق یکساں نصاب کے کچھ بنیادی مقاصد ہے جیسے قرآن کی تعلیمات کو عام کرنا، طالب علموں کو آئین پاکستان سے آگاہی دینا اور قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کو متعارف کروانا ہے۔

مزید یہ کہ ایس این سی کے کچھ حصے پاکستانی آئین کے آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، جیسے کہ کچھ تعلیمی اداروں مذہب کی آزادی کی اجازت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اگر آپ اسکولوں میں قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دیں گے تو یہ غیرمسلم طلباء کے ساتھ زیادتی ہو گی، اور ہمارا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

لاہور میں مقیم پبلک پالیسی کے ماہر پیٹر جیکبز کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کے اقدام سے غیر مسلم طلباء کے حقوق سلب ہوں گے۔ جب آپ خاص طور پر یہ سوال کریں گے کہ “کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ ہمارا خالق ہے؟” تو غیر مسلم طلباء کا کیا ہوگا؟ کیا وہ اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب پر مبنی مواد کے مطالعہ سے مستثنیٰ ہوں گے؟

سیمیناری اور ایس این سی

SNC مدرسے ، مدارس یا کسی بھی مذہبی ادارے کو ایک متفقہ تعلیمی نظام میں ضم کرے گا جس سے ایک تشویشناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان میں اس وقت 25 ہزار مدارس اور 2 لاکھ 50 ہزار اسکولز ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر 10 میں سے 1 بچہ اپنی تعلیمی ضروریات کے لیے مدرسے پر انحصار کرتا ہے۔

مدارس کو اکثر ناقص تعلیمی نتائج کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن یہ ادارے اکثر غریب طلباء کے لیے واحد آپشن ہوتے ہیں کیونکہ ایسے سکول مفت تعلیم اور اکثر ضرورت مندوں کو کھانا اور پناہ گاہ بھی فراہم کرتے ہیں۔

پی ایم خان کی ایس این سی کی حمایت

یہ صرف مستقبل میں طے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی حمایت کی جائے یا نہیں دوسرا یہ کہ طالب علم اس سے فائدہ اٹھائیں گے یا نہیں۔ آئیے آنے والے امکانات میں دیکھتے ہیں کہ ایس این سی کا طلباء اور پاکستان کے مستقبل پر کیا اثر پڑتا ہے۔

Related Posts