کورونا کی خطرناک صورتحال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان اِس وقت کورونا وائرس کی چوتھی لہر کا سامنا کر رہا ہے جس کے دوران ملک بھر میں بالخصوص کراچی اور سندھ میں کیسز کی تعداد اور اموات میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا۔ سندھ حکومت نے اس حوالے سے وبا پر قابو پانے کے لیے ’سخت لاک ڈاؤن‘ نافذ کردیا۔

تاہم ، میری رائے میں مکمل لاک ڈاؤن کورونا کے مسئلے کا حل نہیں، دیہاڑی دار مزدوروں  اور محنت کش طبقے کو اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ایس او پیز پر عمل کرنا اور ہاٹ سپاٹ علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کو نافذ کرنا مہلک وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کا واحد راستہ ہے۔ ہم نے اس حکمت عملی کے ساتھ بار بار کامیابی کا مشاہدہ کیا ہے۔

ایک اور غلطی سندھ حکومت کورونا وائرس کا خوف اور ہیجان پھیلا کر کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ، شہریوں میں تناؤ پیدا ہوگا ، جس سے مدافعتی نظام کمزور ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر کے ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ لوگوں کو کسی بھی حالت میں دباؤ محسوس نہیں کرنا چاہیے۔

جب وزیر اعظم عمران خان نے گھبرانا نہیں کہہ کر یہی بات کی تو اپوزیشن اور سوشل میڈیا صارفین نے ان پر شدید تنقید کے نشتر چلا دئیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں عوام الناس پر دباؤ نہ ڈالتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا تاکہ ہم کورونا جیسے عفریت سے لڑ سکیں۔

دریں اثنا ، وفاقی اور سندھ حکومتیں کورونا کے خلاف جنگ میں ایک پیج پر نہیں ہیں۔ حکومتوں کے درمیان اندرونی خلفشار اور اختلافات نے بھی عوام کو بے حد پریشان کیا، جس کا براہ راست اثر ان کی صحت پر پڑ سکتا ہے۔ مہلک وائرس پر کامیابی سے قابو پانے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت کو مل کر پالیسیاں بنانا ہوں گی۔ 

ایک سچ یہ بھی ہے کہ کورونا کی روک تھام کیلئے ویکسینیشن کا عمل جاری ہے ، لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے جو آبادی کے بڑے حصے کو وائرس سے بچا نہیں سکتا۔ ملک میں تقریبا 40 لاکھ افراد ویکسین کی مکمل خوراک لگوا چکے ہیں، جبکہ حکومت کا بالغ آبادی کیلئے ہدف 7 کروڑ کا ہے، سو ٹارگٹ اور حصول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

وائرس کی پہلی تین لہروں کے دوران خوش قسمتی اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کے امتزاج سے پاکستان ان تباہ کن حالات و واقعات سے بچ گیا جو یورپ اور ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے کچھ حصوں میں آج بھی نظر آرہے ہیں۔تاہم کورونا کی نئی قسم ڈیلٹا پھیل جانے کے بعد یہ خوف سر اٹھا رہا ہے کہ محکمۂ صحت کا انفراسٹرکچر بری طرح تباہ حالی کا شکار ہوسکتا ہے جو خوفناک حد تک حقیقت پسندانہ تجزیہ کہا جاسکتا ہے۔

جو لوگ کورونا وائرس سے صحتیاب ہورہے ہیں، ان کے بارے میں یہ رپورٹ سامنے آرہی ہے کہ ان کے جسم میں کولیسٹرول کی سطح بڑھ رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو دل کی بیماریوں اور فالج کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ ایسے میں کورونا سے صحتیاب ہونے والے تمام لوگوں کو کولیسٹرول ٹیسٹ سمیت مکمل طبی معائنہ کرانے کے بعد ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات لینی چاہئیں۔

خوش قسمتی سے پاکستان میں کورونا زیادہ تباہی پھیلانے میں کامیاب نہیں ہوسکا، لیکن ڈیلٹا قسم کے پھیلاؤ کے بعد صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے۔ بھارت میں کورونا کے باعث اموات خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ ندیاں انسانوں کی لاشیں اگلتی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر عوام نے کورونا ایس او پیز پر عمل نہ کیا یا ویکسین نہ لی تو کورونا کی موجودہ لہر مراکزِ صحت، ہسپتالوں اور دیگر انفراسٹرکچر کو تباہی کا شکار کرسکتی ہے جس سے بچنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ 

Related Posts