مجرم وکلاء اور نامعقول انصاف

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق حضرت محمد مصطفیٰ  ﷺ نے فرمایا کہ شائستگی / شرم و حیا اور معصومیت ایمان کی دو شاخیں ہیں جبکہ بے حیائی اور فحاشی منافقت کی دو شاخیں ہیں۔

بہت سے لوگ یہ سوچ کر حیران ہوں گے کہ بے حیائی یا بے باکی کو منافقت یا منفی اقدار میں کیوں شامل کیا گیا کیونکہ بعض اوقات بے حیائی کسی شخص کو دوسرے انسانوں کا فائدہ اٹھانے کے قابل بناتی ہے اور اسے دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے استعمال کیاجاسکتا ہے۔ بے باکی کو ہمیشہ منافقت کی قسم قرار نہیں دیاجاسکتا کیونکہ حضورِ اکرم ﷺ کا ایک لقب المبین ہے جس کا مطلب بے باک قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم، آپ ﷺ نے اپنی بے باکی کو نیکی کیلئے استعمال فرمایا۔ آپ ﷺ کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ بعض اوقات بے باکانہ گفتگو جادو کی طرح اثر کرتی ہے۔

حضورِ اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے دوران انصارسے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے، جسے منافق سمجھا جاتا تھا کسی دوسرے مسلمان سے ایک زرہ چوری کر لی۔ اسے یہ خوف تھا کہ میں کہیں پکڑا نہ جاؤں، اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر میں پھینک دی۔ جب حضور ﷺ مذکورہ یہودی کو سزا دینے والے تھے تو اللہ تعالیٰ نے معصوم یہودی کے حق میں قرآنِ پاک کی آیات نازل فرمائیں تاکہ منافق شخص کی بے باکی اور دھوکہ حضور ﷺ کو متاثر نہ کرسکے۔

قرآن پاک کی ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اے محبوب ﷺبے شک ہم نے تمہاری طرف ایک سچی کتاب اتاری کہ تم لوگوں میں فیصلہ کرو جس طرح تمہیں اللہ دِکھائے اور دھوکہ دینے والوں کی طرف سے نہ جھگڑو۔ اور اللہ سے معافی چاہو، بے شک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔اور ان کی طرف سے نہ جھگڑو جو اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے ہیں بے شک اللہ کسی بڑے دغاباز گنہگار کو دوست نہیں رکھتا۔ لوگ آدمیوں سے چھپتے ہیں اور اللہ سے نہیں چھپتے۔ اور اللہ ان کے پاس ہوتا ہے جب وہ دل میں کوئی بات سوچتے ہیں جو اللہ کو نا پسند ہے۔ اور اللہ ان کے کاموں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ سنو یہ جو تم ہو ، دنیا کی زندگی میں (اگر) ان کی طرف سے جھگڑے تو ان کی طرف سے قیامت کے دن اللہ سے کون جھگڑے گا اور کون ان کا وکیل ہوگا؟ اور جو کوئی برائی یا اپنی جان پر ظلم کرے ، پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گااور جو گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے ، اُس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ کیا ۔ (سورۂ نساء، آیت 105 تا 112)

کچھ لوگ بے باکی کو منفی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں جس کی بڑی مثال تمباکو یا اسلحے کے وکیل ہیں جو برائی کیلئے بے باکی کو استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے وکیل (مثلاً فارما اور انشورنس کمپنیوں کیلئے نمائندہ بن کر خدمات سرانجام دینے والے)، میڈیا کے تجزیہ کار اور غلط اشتہار دینے والے یا چینی کی صنعت سے وابستہ افراد مجرم وکلاء قرار دئیے جاسکتے ہیں۔

امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص جس کے خلاف گواہی دی جارہی ہے وہ امیر ہو تو اس کی امارت اور پیسے کے باعث اس کی حمایت نہیں کی جانی چاہئے چاہے آپ اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہیں یا اس کی کسی برائی سے بچنا چاہیں اور اسی طرح کسی ایسے شخص کیلئے گواہی دیتے ہوئے جو غریب ہے، اس کی غربت دیکھتے ہوئے اس کی حمایت نہیں کرنی چاہئے ، چاہے آپ اس کیلئے رحمدلی یا ہمدردی محسوس کریں، یہی اصول خلاف گواہی دینے کیلئے ہے یعنی ہر حالت میں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

اپنی بے باکی، طاقت، پیسے یا سہولیات کو دوسروں کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے جبکہ غلط اور جھوٹی گواہی ایک گناہِ عظیم ہے۔

دوسروں کو چکمہ دینے کیلئے دھوکہ دہی کی مہارت ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے جب دو افراد آپس میں کسی انصاف کے معاملے پر بحث کرتے ہیں اور ایک شخص اپنی رائے پر دلائل دینے میں دوسرے سے بہتر ہو تو وہ بے باکی کا استعمال سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے کرنے لگتا ہے جس کا مطلب بے باکی کے ذریعے دوسروں کو بے وقوف بنانا ہے۔ اس لیے اگر کوئی منصب ایسے شخص کے حق میں فیصلہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے استحقاق سے زیادہ حاصل کرے گا، اس لیے درحقیقت یہ لوگ جہنم کی آگ وصول کرتے ہیں۔

اگر آپ کسی شخص کے ساتھ فراڈ کرنے والے ہوں اور آپ کو یہ معلوم ہو کہ آپ کے پاس ذرائع بھی ہیں جن کے ذریعے آپ کوئی ایسا وکیل کرسکیں جو اِس دنیا میں آپ کو یہ کیس جتوا سکتا ہے تو یہ ضرور سوچئے گا کہ قیامت کے روز اللہ کے سامنے خود آپ کے سوا آپ کا کوئی وکیل نہیں ہوگا۔

آج طاقت اور تعلقات یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انصاف کیسے کیا جائے۔ امیر لوگ بہترین وکیل کرلیتے ہیں جبکہ دیگر کے پاس کم مہارت والے وکلاء ہوتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس سے حضور ﷺ نے منع فرمایا۔

سیّدنا علی ابنِ ابی طالب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک جنگ لڑی گئی جس کے دوران شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہ کی زرہ کسی نے چوری کر لی۔ آپ نے دیکھا کہ ایک مسیحی شہری کے پاس آپ کی زرہ موجود ہے جس پر آپ نے اسے بتایا کہ یہ زرہ میری ہے لیکن مسیحی نہ مانا جس کے بعد آپ مسیحی کے ساتھ ایک ممتاز منصف کے پاس گئے تاکہ معاملہ درست کیا جاسکے۔ 

منصف نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ یہ آپ کی زرہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے بیٹے اور غلام کو لا سکتا ہوں جو یہ گواہی دیں گے کہ زرہ میری ہے۔ منصف نے کہا کہ یہ دونوں گواہ جو آپ پیش کر رہے ہیں، ناقابلِ قبول ہیں کیونکہ غلام شاید آپ سے ڈرے اور غلط گواہی دے بیٹھے اور دوسرا آپ کا بیٹا ہے۔ یہاں مفادات کا تضاد پیدا ہوتا ہے۔

جواباً سیّدنا علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا کہ سبحان اللہ ، تم اس کی گواہی کو رد کردو گے جس کیلئے حضور ﷺ نے جنت کی ضمانت دی؟ منصف نے فیصلہ کیا کہ علی کرم اللہ وجہہ کے گواہان ناقابلِ قبول ہیں جس پر آپ رضامند ہو گئے۔ اسی دوران مسیحی شہری حیرت میں مبتلا رہا کہ اس کے ساتھ کس طرح انصاف کیا جارہا تھا۔

مسیحی نے کہا کہ اِس قسم کا رویہ کوئی پیغمبر ہی ایک منصف کو سکھا سکتا ہے جس کے بعد اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زرہ انہیں واپس کردی۔ اس نے کہا کہ میں نے آپ کی زرہ گرتے ہوئے دیکھی اور غلط ارادے سے اسے حاصل کرلیا۔ بعد ازاں حضرت علی نے خود اپنی زرہ اس کے حوالے کردی کیونکہ اس نے سچی گواہی دی تھی۔

انصاف کا اطلاق ہر شخص پر یکساں ہونا چاہئے۔ چاہے کوئی شخص بہتر وکیل ہو یا نہ ہو ، بے باکی یا دلائل کی طاقت کا غلط فائدہ اٹھانے کی اجازت کسی کو نہیں دینی چاہئے۔

صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہم یہ بات دیکھ رہے ہیں کہ مجرموں کیلئے عدلیہ کی طرف سے ایسے فیصلے دئیے جاتے ہیں جن میں انہیں رعایت مل جاتی ہے کیونکہ وہ مہنگے اور پرزور دلائل دینے والے وکلاء کو خرید سکتے ہیں جس کے مقابلے میں معصوم افراد وہ انصاف حاصل نہیں کرسکتے جو ان کا حق ہوتا ہے۔

ہمیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور جیسے منصفین چاہئیں جو دولت، طاقت اور اقتدار کے سامنے جھکنے کی بجائے انصاف غیر جانبداری سے عطا کریں۔ ایک بار پھر میں شیخ عمر سلیمان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اِس کالم کیلئے وہ علم عطا کیا جس کیلئے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اسلام کیلئے خدمت قبول فرمائے۔ جو اچھی باتیں میں نے اِس کالم میں تحریر کیں، وہ اللہ تعالیٰ کا فضل جبکہ تمام تر اغلاط میرا اپنا قصور ہیں۔ 

Related Posts