کورونا وائرس کے باعث پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

چین میں گزشتہ سال دسمبر میں سامنے آنیوالے کورونا وائرس نے اس وقت دنیا کے کم وبیش 150 سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، پوری دنیا میں ہو کا عالم ہے ، سپرپاور امریکا، یورپ سمیت پوری دنیا میں ایک بھونچال برپا ہے ، عالمی ادارہ صحت کی جانب سے وباء قراردیئے جانیوالے کورونا وائرس قیمتی انسانی جانوں کے ساتھ پوری دنیا کی معیشتوں کو تباہ کردیا ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کے 2 سو سے زائد کیس سامنے آچکے ہیں جبکہ حکومت ہوش میں آنے سے پہلے کتنے لوگ ایران ودیگر ممالک سے یہ وائرس اپنے ساتھ لیکر ملک کے مختلف شہروں میں جاچکے ہیں ان کی تعداد کا کسی کو علم نہیں ہے۔

چین نے تو چند ماہ میں کورونا وائرس پر قابو پالیا ہے اور اب وہاں صورتحال کنٹرول میں آچکی ہے لیکن پاکستان میں صورتحال بالکل مختلف ہے ،یہاں کورونا وائرس کے خدشات کے باوجود حکومت نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے اور جب پاکستان میں کیس سامنے آئے تب بھی حکومت کا رویہ انتہائی تشویشناک تھا۔ وفاقی حکومت نے سندھ میں کورونا وائرس کے کیسز پر کوئی سرگرمی نہیں دکھائی اور معاملے کو سیاست کی نظر کردیا جس کی وجہ سے آج یہ وباء پاکستان کے تمام صوبوں میں پہنچ چکی ہے۔

وفاق نے تعصب کی روش اپناتے ہوئے چین سے کورونا وائرس کی تشخیص کیلئے آنیوالی کٹس سندھ کو نہ دیکر سیاسی چپقلش کی آڑ میں انسانی جانوں کو دائو پر لگایا کر منفی روایات کو جنم دیا۔ وفاقی حکومت کے نزدیک سندھ کے عوام کی کوئی وقعت نہیں ہے اس لیئے وفاقی حکومت نے سندھ حکومت اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تاہم سندھ حکومت کی جانب سے انتہائی قابل قدر کاوشیں دیکھنے میں آئیں جن کی وجہ سے سندھ میں معاملات زیادہ نہیں بگڑے تاہم اگر ایسی آفات کی صورت میں سیاست کی بجائے قوم کے مفاد کو مدنظر رکھا جاتا تو شائد موذی مرض کو پھیلنے سے پہلے روکا جاسکتا تھا۔

کورونا وائرس سے معیشت کو نقصان
ایک ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی معیشت کی حالت کبھی بھی قابل تعریف نہیں رہی ، پاکستان میں آنے والی ہر حکومت قرضوں لیکر ملک کا نظام چلاتی ہے تاہم کورونا وائرس نے پاکستان کی بدحال معیشت کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔

سندھ میں کورونا وائرس کی وجہ سے شادی ہال، پارکس، ریسٹورنٹس، تفریحی مقامات بند کردیئے گئے ہیں ، انسانی جان سے زیادہ قیمتی کچھ بھی نہیں ہے اس لیئے یہ اقدامات بلاشبہ ناگزیر ہیں لیکن لاک ڈائون کی وجہ سے دیہاڑی دار مزدور، ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ویٹرز اور گھوم پھر کا سامان بیچ کر دووقت کی روٹی کمانے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ، غریب مزدوروں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آچکی ہے۔

فیکٹریوں میں پروڈکشن بند ہونے سے مزدور بیکار بیٹھےہیں، دنیا بھر میں تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ بھی رک چکی ہے جس سے پاکستان کی معیشت کا پہیہ مکمل طور پر جام ہوگیا ہے اور اگرنقصان کا تخمینہ لگایا جائے تو پاکستان میں پیدا ہونیوالے حالات مزید کچھ دن جاری رہے تو پاکستا ن کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

اسٹاک مارکیٹ اور کاروبار
دنیا کے کسی بھی ملک میں مقامی وغیر ملکی سرمایہ کاری کا دارومدار اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال پر منحصر ہوتا ہے۔ کوئی بھی غیر ملکی سرمایہ کار متعلقہ ملک کی اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس دیکھ کر ہی مارکیٹ میں اپنا پیسہ لگاتا ہے ، موجودہ حکومت کے قیام کے وقت پاکستان میں 52 ہزار پوائنٹس پر ٹریڈ کرنیوالی اسٹاک مارکیٹ موجودہ دور حکومت میں  43 ہزار پوائنٹس تک ٹریڈ کررہی تھی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ دو ماہ سے پوری دنیا میں کاروبار زندگی معطل ہونے کی وجہ سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ پر بھی انتہائی منفی اثرات دیکھنے میں آئے ہیں۔

اس وقت پاکستان اسٹاک مارکیٹ کریش ہونے کے بعد انڈیکس 30 ہزارپوائنٹس تک گرچکا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے کھربوں روپے ڈوب چکے ہیں اور مارکیٹ میں خوف کی فضاء قائم ہے جس کی وجہ سے نئے انویسٹر مارکیٹ میں پیسہ لگانے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس آئندہ دنوں میں 25 ہزارپوائنٹس تک گرنے کا خدشہ ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کو مزید کھربوں روپے کا نقصان ہوگا جس کی بھرپائی کئی سالوں میں بھی ممکن نہیں ہوگی۔ امریکا میں اسٹاک مارکیٹ کو سنبھالا دینے کیلئے حکومت نے 5 سوملین ڈالر لگاکر مارکیٹ میں کو سہارا دیا لیکن پاکستان میں تاحال اسٹاک مارکیٹ کو سنبھالنے کیلئے حکومت کی طرف سے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

شرح سود
کسی بھی ملک کی معیشت میں انڈسٹریز کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے اور انڈسٹریز کا دارومدار شرح سود کے گرد گھومتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کو ایکسپورٹ بینک ایل سی کے ذریعے کی جاتی ہے اور بینک گارنٹی لیتا ہے اور اگر متعلقہ کمپنی ڈیفالٹ کرجاتی ہے تو ضامن کے طور پر بینک مخالف فریق کو ادائیگی کرتاہے اور فریق اول سے انٹرسٹ وصول کرتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ شرح سود ہے جبکہ گزشتہ روز اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں محض 75 بیسس پوائنٹس کی کمی کرکے تاجروں کو مایوس کردیا ہے کیونکہ پاکستان میں 13.25فیصد شرح سود میں معمولی کمی کے بعد 12.50فیصد ہونے سے کاروباری طبقے کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔

شرح سود 2 سے 3 فیصد کم کرکے سنگل ڈیجٹ میں لانے سے ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ مل سکتا ہے لیکن حکومت کی جانب سے صنعت وتجارت کی جانب خاص توجہ نہ دینے کی وجہ سے معیشت بدحال ہوچکی ہے جبکہ امریکا میں ایک فیصد شرح سود کو بھی صفر کیا جاچکا ہے اور پاکستان اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ شرح سود لینے کے بعد کیونکر معاشی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے۔

جب تک حکومت شرح سود کم نہیں کرے گی کاروباری سرگرمیوں میں استحکام نہیں آئیگا ،شرح سود کم ہوگی تو ملک میں انڈسٹریز کا پہیہ چلے گا اور یہ بات تو طے ہے کہ صنعتیں چلیں گی تو ہی ملک خوشحال ہوگا ۔ اس لیئے حکومت وقتی اور نمائشی اقدامات کی بجائے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے کاروبار پر توجہ دے اور شرح سود کم کرکے کاروباری برادری کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔

عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت
پاکستان کو تیل کی خریداری کیلئے کثیر سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر آچکی ہیں جس کا فائدہ حکومت کو تو ہورہا ہے لیکن عوام اور تاجر ریلیف سے محروم ہیں تاہم اگر حکومت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گرتے ہی ملک میں ایک حکمت عملی کے تحت کاروباری برادری کو اعتماد میں لیکر چھ ماہ کیلئے تیل ، بجلی اور گیس ارزاں نرخوں پر فراہم کرتی تو پاکستان کی معیشت کو فائدہ ہوسکتا تھا۔

حکومت نے قیمتیں کم نہ کرکے خود فائدہ اٹھانے کو ترجیح دی جوکہ عارضی فائدہ ہے لیکن اگر تیل کی قیمتوں کا فائدہ اٹھا کر ملک میں انڈسٹری کا پہیہ چلایا جاتا تو پاکستان کافی آگے جاسکتا تھا۔حکومت کی جانب سے واضح پالیسی بنائی جاتی توپاکستان کی جی ڈی پی گروتھ کرتی جس سے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی فائدہ پہنچتا لیکن افسوس کہ حکومت نے کاروبارکو یکسر نظر انداز کررکھا ہے جس کے منفی اثرات پورے ملک پر مرتب ہورہے ہیں۔

بیرونی قرضے
پاکستان کی معیشت کا مکمل انحصار غیر ملکی قرضوں پر ہے ، پاکستان میں کاروبار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے معیشت کی حالت انتہائی خراب ہے جس کی وجہ سے حکومت کو ہر چند ماہ بعد عالمی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں کاروبار ٹھپ ہے۔

چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کیلئے موجودہ صورتحال سے نکلنا کوئی بڑی بات نہیں  ہے لیکن ترقی پذیر پاکستان کیلئے موجودہ حالات میں غیر ملکی قرضوں پر سود دینا بھی ممکن نہیں رہا۔ حکومت کو عالمی اداروں سے قرضوں پر سود معاف کرنے اور رقم کی واپسی کی میعاد بڑھانے کے حوالے بات کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان موجودہ حالات میں کسی صورت غیر ملکی قرضے یا سود ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ اٹھائے تو پاکستان دیوالیہ بھی ہوسکتا ہے۔

حکومتی اقدامات
پوری دنیا کورونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے اور آج دنیا کے بااثر اور طاقتور ترین ممالک بھی لاک ڈائون کی صورتحال سے دوچار ہیں تاہم پاکستان میں آج بھی سیاسی عناد اور رسہ کشی کا عنصر نمایاں طور پر دیکھنے میں آرہا ہے ، وفاق کی جانب سے سندھ میں کورونا کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد فوری ردعمل سامنے نہ آنے کی وجہ سے صورتحال پیچیدہ ہوئی ۔

سندھ میں مخالف حکومت کو دبانے کی حکمت عملی نے آج پورے ملک کو مشکل میں ڈال دیا ہے ، وفاق وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظرچین سے ملنے والا سامان سندھ کو دیکر جانی ومالی نقصان کو روک سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا جس کی وجہ سے آج پورے ملک میں پے در پے کورونا کے کیس سامنے آرہے ہیں۔ ایران سے آنیوالے زائرین اور دیگر ممالک سے آنیوالے افراد کی موثر اسکریننگ کے ذریعے وباء کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا لیکن یہاں بھی انتظامی نااہلی دیکھنے میں آئی۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق اور تمام صوبے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر قوم کے مفاد میں ایک ہو کر کام کریں اور عوام کواس وباء سے بچانے کیلئے ہر طرح کے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں اور عوام بھی اس موذی مرض سے بچائو کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں کیونکہ اس وباء کو ملکر کی شکست دی جاسکتی ہے۔

Related Posts