گردشی قرضہ اور مہنگی بجلی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کا متحرک گردشی قرض تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت کیلئے دردِ سر بن چکا ہے جو ایک ایسا ٹائم بم ثابت ہوا جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ معاشی نمو کی گردش پہلے ہی پریشان کن حد تک کمزور ہے جسے گردشی قرض آن کی آن میں تباہ کرسکتا ہے جبکہ جنوری 2021ء تک پاکستان کا مجموعی گردشی قرضہ 2 ہزار 306 ارب تھا۔

حال ہی میں وفاقی حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں 1 روپے 95 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا تاہم آئی ایم ایف سے اربوں کا قرض حاصل کرنے کیلئے عوام پر بوجھ ڈالنے کے باوجود گردشی قرضے میں مزید اضافہ دیکھا گیا۔

ملک بھر میں بجلی کے شعبے کو درپیش 7 چیلنجز میں بھی گردشی قرض سب سے اہم ہے۔ یہ ایک عوامی قرض ہے جو بلا معاوضہ سرکاری سبسڈی کا جھونکا ثابت ہوا جس کے نتیجے میں تقسیم کار کمپنیوں پر قرض چڑھتا ہے۔ جب ایسا کیا جاتا ہے تو تقسیم کار کمپنیاں بجلی کے آزاد پیداکاروں کو ادائیگیاں کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ بدلے میں ایندھن مہیا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی نہیں ہوتی اور ملک پر قرض کے برے اثرات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

اقتدار سنبھالتے ہی پی ٹی آئی حکومت نے وعدہ کیا کہ ہم کارکردگی میں بہتری لا کر معیشت کے تیسرے سب سے بڑے اقتصادی مسئلے سے نمٹیں گے۔ بلوں کی ادائیگی میں بہتری لانے کیلئے نادہندگان اور بجلی چوروں سے سختی سے نمٹنے کا اعلان کیا گیا، تاہم اس کے ساتھ ہی یہ نیا انکشاف سامنے آیا کہ حکومت کے معاشی و اقتصادی مشیروں کے پاس بھاری بھرکم قرض سے نمٹنے کا صرف ایک ہی طریقہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے اپنا بوجھ عوام پر منتقل کرنا ہے۔

یہی وہ مقامِ فکر ہے جہاں ہمیں سوال کرنا چاہئے کہ پاکستان درحقیقت اس پستی کے مقام تک کیسے پہنچا؟ یہ مسئلہ دراصل آئی پی پیز کے ساتھ برے معاہدوں میں سے ایک کا نتیجہ ہے اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت پر تحقیق کی جاسکتی ہے جس نے آئی پی پی سے معاہدہ کرکے صارفین کیلئے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔

بعد ازاں فوجی حکمران جنرل مشرف نے پبلک سیکٹر کو پن بجلی پیدا کرنے کی اجازت نہ دے کر شعبے کی صورتحال مزید خراب کردی۔ نواز شریف کی ن لیگ حکومت نے بھی آئی پی پیز پر انحصار جاری رکھا۔ پانی کی جگہ تیل، گیس اور کوئلے سے ناکارہ اور فرسودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے بجلی کی پیداوار حاصل کی گئی۔ حکومتوں کی غلطیوں پر غلطیوں کا انبار لگتا چلا گیا جس کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے بھی ایک الگ انداز سے انہی مسائل میں اضافہ کیا جو عوام کیلئے وبالِ جان بن چکے ہیں۔

دوسری جانب بجلی چوری، لائن لاسز اور عدم ادائیگیوں کے باعث بڑے پیمانے پر مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ 70 فیصد بجلی حکومت خود چوری کر لیتی ہے جبکہ اراکینِ پارلیمنٹ جو کاروبار کرتے ہیں، ان کے ذریعے 25 فیصد مزید چوری ہوتی ہے۔ بہرحال، یہ عوام ہیں جنہیں بجلی پر حکومت کی غلط پالیسیوں اور بجلی کے مہنگے نرخوں کی صورت میں اس شعبے کی شدید بدانتظامیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ گردشی قرضے کے مسئلے کو حل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر ایسے اقدامات اٹھائے کہ تمام تر آپشنز سے محروم ہونے سے قبل اور معاشی جمود طاری ہونے سے پہلے پہلے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوئی صورت نکل سکے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کو اس سلسلے میں سب سے پہلے اپنے وزراء کو حکم دینا ہوگا کہ بجلی کے واجبات فوری طور پر ادا کریں۔ قومی اسٹیک ہولڈرز کو قابلِ اعتماد، مناسب اور کم قیمت بجلی عوام کو مہیا کرنے کیلئے دستیاب تمام تر ذرائع استعمال کرنا ہوں گے تاکہ عوام معاشی مسائل سے نکل سکیں۔ 

Related Posts