چین امریکا محاذ آرائی اور ایران فیکٹر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان سمیت دنیا بھر میں دو بڑوں یعنی چین اور امریکا کی محاذ آرائی اور بدلتے ہوئے جیو پولیٹیکل منظر نامے پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

ایسے میں امریکا نے ایران کے منجمد اثاثوں کو جاری کرنے کیلئے اقدام اٹھایا جس سے پتہ چلتا ہے کہ برس ہا برس سے دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات میں جیو پولیٹیکل منظر نامے کی وجہ سے سرد مہری کی دھند آہستہ آہستہ چھٹنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔

قبل ازین امریکا نے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کرلی جسے ایران نیو کلیئر ڈیل سے بھی موسوم کیا جاتا ہے جس سے ایک مختلف صورتحال پیدا ہوئی جس کے تحت ایران بعض پابندیوں سے آزاد ہوگیااور مبینہ طور پر ایران نے نیو کلیئر ڈیل سے امریکی یکطرفہ انخلا کے بعد بھی اپنا جوہری افزودگی کا پروگرام جاری وساری رکھا۔

عالمی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران جوہری افزودگی کی اس سطح کو حاصل کرچکا ہے جو ممکنہ طور پر جوہری ہتھیاروں کیلئے ضروری ہوتی ہے اور جس کے نتیجے میں ایران دنیا کی دوسری اسلامی جوہری طاقت بن کر ابھر سکتا ہے۔

پہلی اسلامی ریاست پاکستان تھی جس نے 1998ء میں بھارت کے یکطرفہ اشتعال انگیز اقدام کے نتیجے میں جوہری دھماکے کیے جو اگر نہ کیے جاتے تو قومی سلامتی و وقار خطرے میں پڑ سکتا تھا تاہم دھماکے کرنے کے نتیجے میں پاکستان کو امریکا، اس کے اتحادیوں اور مغربی ممالک نے جس نظر سے دیکھنا شروع کیا۔

اس کے اثرات و مضمرات ہم آج تک بھگتنے پر مجبور ہیں اور آگے بھی خدا معلوم کتنی دہائیوں تک بھگتتے رہیں گے جن میں آئی ایم ایف سے معاہدوں کی صورت میں مالیاتی غلامی اور ایف اے ٹی ایف میں گرے لسٹ کیا جانا شامل ہے، اس کے علاوہ بھی سفارتی و بین الاقوامی سطح پر متعدد ایسے محرکات ہیں جو جوہری قوت حاصل نہ کرنے کی صورت میں برعکس ہوسکتے تھے۔

جنوبی ایشیا میں بدلتے ہوئے منظر نامے کو دیکھا جائے تو چین نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایران سے اپنے تعلقات مضبوط بنائے اور گزشتہ چند برسوں میں کم و بیش 400 ارب ڈالر کے دفاعی و اقتصادی معاہدے کر ڈالے جس سے ایران کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ چین نے سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی میں بڑی نفاست کے ساتھ اپنے سفارتی کردار کو بھی ادا کیا۔

امریکہ اور اسرائیل کو ایران کی جوہری صلاحیتوں اور اس کی غیر اعلانیہ اور ناقابل شناخت جوہری تنصیبات پر تشویش ہے۔آج بھی امریکہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے معائنہ کاروں کی ایران واپسی میں کردار ادا کرسکتا ہے تاکہ اس کی جوہری سرگرمیوں کی معلومات تک رسائی مل سکے۔

روایتی طور پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف رہنے والے یہ دو ممالک یعنی امریکا اور ایران گرچہ ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکتے تاہم بدلتے ہوئے جیو پولیٹیکل تناظر میں تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف ایک اہم قدم کے طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ بہتر تعلقات بین الاقوامی تیل کی منڈی پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔

ایران کے پاس تیل کے اہم ذخائر ہیں، اور اس کی تیل کی بڑھتی ہوئی پیداوار تیل کی عالمی قیمتوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس سے روس کی تیل کی برآمدات پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ایران کی تیل کی خاطر خواہ پیداوار تیل کی منڈی کو مستحکم کرنے میں مدد دے سکتی ہے، خاص طور پر جب سعودی عرب اپنی پیداوار کو کم کرتا ہے۔

حقائق پر نظر ڈالی جائے تو 2023ء کی مردم شماری کے مطابق ایران کی آبادی 8 کروڑ 72 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس ملک کا جی ڈی پی 350 ارب ڈالرز سے زائد ہے۔

1979 میں شاہِ ایران کی تخت سے محرومی اور ایرانی انقلاب کے بعد سے امریکا کی پابندیوں نے اس ملک کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچایا ۔ ایک امریکی ڈالر کی قیمت 42 ہزار ایرانی ریال سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔

عالمی سطح پر صحافیوں کیلئے یہ بد ترین ملک کے طورپر بدنام ہے جہاں آزادئ اظہارِ رائے نہیں اور لوگوں کو سرعام پھانسیاں دی جاتی ہیں تاہم حقیقت اتنی بھی تلخ نہیں، جتنی کہ بیان کی جاتی ہے۔ ایران کے حقائق سمجھنے ہیں تو ایران کے اندر جا کر وہاں کے حالات دیکھنے کی ضرورت پیش آئے گی۔

اگر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے معاہدے کو ایک بار پھر فعال کیا جاتا ہے تو ایران کو اپنی جوہری سرگرمیوں کو لگام دینے کی ضرورت پیش آسکتی ہے جبکہ امریکا، اس کے اتحادیوں اور مغربی ممالک کا ماننا ہے کہ ایران کی شام میں نقل و حرکت، اس کے اسرائیل پر حملے کے خطرے کے سبب جوہری اکارڈ میں دوبارہ امریکا کی من مانی کے مطابق شامل ہوجائے ۔

ایران نے امریکا دباؤ کے باوجود ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے جوہری مقاصد کو حاصل کرنے کیلئےتگ و دو کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے امریکا اور اسرائیل اب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب ایران کو جوہری قوت بننے سے نہیں روک سکتے ۔

امریکا اور اسرائیل کے ذہنوں میں اب شائد یہ منصوبہ ہو کہ ایران کو کسی ایسے روابط کے ساتھ ان کے اچھے مستقبل کا عندیہ دیا جائے کہ وہ واپس نیوکلیئر اکارڈ میں شامل ہوں تاکہ امریکا کو ایران میں آئی اے ای اےکے ذریعے رسائی مل سکے اور ناصرف یہ بلکہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کے ذریعے ایران جو نوگوایریا تھا وہاں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور ایران کی جوہری صلاحیت کو کم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

Related Posts