بچوں سے جنسی زیادتی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی میں حال ہی میں 5 سالہ مروہ کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل نے زینب انصاری کی یادیں تازہ کردی ہیں ،جسے 2018ء میں قصور میں اغواء کرکے جنسی زیادتی کی گئی اور پھر قتل کردیا گیا۔ 

مارچ 2020ء میں ، بچوں کے ساتھ زیادتی کے الزام میں عمر قید کی سزا کے ساتھ  بچوں سے بدسلوکی کا پہلا قومی قانون منظور کیا گیا۔ یہ قانون منظور ہونے کے باوجود ، بچوں  اور نو عمر لڑکے لڑکیوں کے ساتھ عصمت دری کے واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکا۔

مذکورہ قانون (زینب الرٹ) کے تحت لاپتہ بچوں کی اطلاع دینے کے لئے ایک ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے ، اور غائب ہونے والے بچے کے بارے میں انتباہ جاری کرنے کے لئے زینب الرٹ ، رسپانس اور بازیافت ایجنسی (زاررا) تشکیل دی گئی۔ یہ ایجنسی تمام متعلقہ وفاقی و صوبائی حکام کے ساتھ رابطہ کرے گی اور قانون نافذ کرنے والےاداروں کے تحت ان تمام بچوں کا آن لائن ڈیٹا بیس بنایا جائے گا  جن کے گمشدہ  یا اغواء ہونے  کی اطلاع دی گئی ہو۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 15 سے 19 سال کی 1 کروڑ 50 لاکھ لڑکیوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ ایشیاء میں 10 لاکھ  سے زیادہ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں  کیا جاتا  یا انہیں ہراسگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اسلام آباد میں قائم چائلڈ پروٹیکشن این جی او ساحل کی ایک رپورٹ کے مطابق ، گزشتہ برس پاکستان میں روزانہ 8 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔ 2019ء میں  پاکستان کے چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ  وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے مجموعی طور پر 2،846 واقعات رپورٹ ہوئے۔ 

ساحل کی رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ  ملک بھر میں 778  اغواء کے واقعات ہوئے، 405 بچے لاپتہ ہو گئے، 384 شدید جنسی زیادتی، 279 جنسی زیادتی، 210 جنسی زیادتی کی کوششیں، 320 اجتماعی زیادتی اور 104 بچوں کی شادی کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ 

متاثرین کی اکثریت ، 54 فیصد  لڑکیاں  جبکہ 46 فیصد لڑکے تھے۔ سب سے کمزور گروپ 6سے 15 سال کی عمر کے درمیان رہا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ  0سے 5 سال تک کے بچوں کو بھی جنسی طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا سب سے عام قصوروار مقتول اور متاثرہ خاندان کے افراد سے واقف  یا رشتہ دار تھا۔ مجموعی طور پر 1،304 واقعات میں سے 614 معاملات ایسے تھے جہاں زیادتی کرنے والوں کا متاثرہ افراد یا متاثرہ خاندان سے تعارف تھا۔  142ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں اجنبی ملوث تھے۔

این جی او (ساحل) کی رپورٹ کے مطابق رواں برس کے پہلے 6 ماہ کے دوران 785 لڑکیوں اور 704 لڑکوں پر مشتمل 1،489 بچے جنسی استحصال کا شکار ہوئے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ تعداد 853 ریکارڈ کی گئی ، اس کے بعد سندھ 477 ، خیبر پختونخوا 91، اسلام آباد 35 ، بلوچستان 22، آزاد کشمیر 10 ، اور گلگت بلتستان میں یہ تعداد1 رہی۔

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بہت سے واقعات اس طرح کی بدسلوکی سے وابستہ معاشرتی شرم کی وجہ سے میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے۔ دوسری جانب ایسے معاملات کی اطلاع پا کر پولیس کا رویہ بھی پریشان کن ہوتا ہے جس کی وجہ سے متاثرہ افراد اور ان کے لواحقین خوفزدہ اور پولیس کو اس سنگین جرم کی اطلاع دینے میں ہچکچاتے ہیں۔ لہٰذا پولیس کے محکمے میں بہتر تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہے جنہیں تربیت یافتہ بنایا جائے اور محکمے میں اصلاحات لائی جائیں تاکہ بچوں سے جنسی استحصال اور زیادتی کے حساس معاملات کو بہتر طور پر سنبھالا جاسکے۔

یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ وزارتِ انسانی حقوق نے اسکولوں میں بچوں سے بد سلوکی کے خلاف آگہی مہم چلانے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن جو بچے اسکول نہیں جاتے، ان تک کون پہنچے گا؟ ہمیں روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے کو اِس سنگین معاملے سے آگاہ کرنے کیلئے ماس میڈیا مہم کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ وفاقی وزارتِ انسانی حقوق اِس بات کوبھی اپنی بیداری مہم کا ایک حصہ سمجھے گی۔

ایک اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال جیسے واقعات کے لیے عمر قید کوئی مؤثر سزا نظر نہیں آتی۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو سزائے موت دینے اور سرِ عام پھانسی دینے کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ پارلیمان کی اکثریت سرِ عام پھانسی کے حق میں ہے۔

ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کو  سزائے موت دینے کا وقت آگیا ہے، بصورتِ دیگر ہمیں اپنے معاشرے کو اِس حوالے سے تعلیم اور شعور دینے کی ضرورت ہے، شاید ہی کوئی شخص اِس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہو کیونکہ ہمارے معاشرے میں بلا شبہ یہ ایک ممنوعہ موضوع ہے۔

قوم کے بچوں کیلئے محفوظ ماحول مہیا کرنا ہماری ذمہ داری ہے جس میں جنسی استحصال کی پروا کیے بغیر ہمارے بچے آگے بڑھ  کر ترقی و خوشحالی حاصل کرسکیں۔ ہمارے معاشرے اور حکومتوں کو چاہئے کہ بچوں کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیں اور اس کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ 

Related Posts