بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کی زیر سرپرستی کراچی میں غیر قانونی تعمیرات جاری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Building control officers engaged in illegal activities

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی : شہر کو کنکریٹ کا جنگل بنانے والے افسران کو نہ سپریم کورٹ کا خوف نہ اعلیٰ افسران کی باز پرس کی پرواہ ہے، شہریوں کی جان و مال داو پر لگا کر ایس بی سی اے افسران صرف اپنی جیبیں گرم کرنے میں مصروف ہیں، ان افسران میں ڈائریکٹر صدر ٹاؤن عبدالرحمان بھٹی، ڈپٹی ڈائریکٹر لال مگسی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر علی مہدی بھی شامل ہیں۔

راشی آفیسرز نے بلڈرز مافیا سے لاکھوں روپے رشوت وصول کر کے درجنوں غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی شروع کر رکھی ہے،صدر ٹاؤن کے علاقے گارڈن میں واقع عثمان آباد میں لال مسجد کے قریب پلاٹ نمبر 4055 پر بلڈر نے مذکورہ راشی افسران کو لاکھوں روپوں میں خرید کر نقشے کے برعکس غیر قانونی تعمیرات جاری رکھی ہوئی ہیں۔

ڈی جی ایس بی سی اے نے عبدالرحمان بھٹی لال مگسی عرف لالو اور علی مہدی کی غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر میں معاونت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

غیر قانونی تعمیرات سے شہر میں انفرا اسٹرکچر کی کمی واقع ہع چکی ہے، 3تا8منزلہ عمرتوں کی تعمیر سے سیوریج کے مسائل جنم لے رہے ہیں، جو سیوریج لائن 100لوگوں کے استعمال کا پانی لی جانے کی استطاعت رکھتی ہے اس پر 500لوگوں کا بوجھ اٹھانہ ناممکن ہو چکا ہے، اسی طرح پینے کے پانی کی فرہمی میں بھی یہ ہی صورتحال ہے۔

بلند عمارتوں کے باعث علاقوں میں گاڑیوں کی پارکنگ بھی ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے ، جبکہ ان عمارتوں کی تعمیر میں نہ ہی نقشہ موجود ہو تا ہے نہ ہی مناسب میٹریل استعمال کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:ایس بی سی اے افسران نے غیر قانونی تعمیرات کو نوٹس جاری کرکے کروڑوں بٹور لیے

غیر معاری تعمیرات کے باعث یہ عمارتیں رہائشیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی غیر قانونی تعمیر شدہ عمارتوں کو منہدم کرنے کے کا حکم دیا تھا مگر افسوس ہے کہ اس پر عمل کرنے کے بجائے الٹا مذید غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔

صدر ٹاون میں گارڈن کے علاقے عثمان آباد کے پلاٹ نمبر 4055 پر بھی غیر قانونی تعمیرات انہیں کرپٹ افسران کی کرپشن کا نتیجہ ہے۔

مختلف سیاسی ، سماجی، اور مذہبی تنظیموں نےسپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ ان راشی افسران کی غیر قانونی تعمیرات کا نوٹس لیں جبکہ سندھ حکومت اور متعلقہ افسران اس حوالے سے راشی افسران کے خلاف کاروائی کریں اور غیر قانونی عمارتیں فوری طور پر منہدم کی جائیں جو انسانی جانوں کے لیے شدید خطرہ ہیں۔

Related Posts