وفاقی بجٹ اعداد وشمار کا ہیر پھیر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا دوسرا بجٹ پیش کردیا ہے، وفاقی وزیر حماد اظہر کی تقریر تو متوازن تھی لیکن بجٹ کے اعداد وشمار کا پٹارا کھلنے کے بعد ہی حقیقت سامنے آسکے گی۔

بجٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت آئندہ مالی سال کے حوالے سے یہ بتادیتی ہے کہ کن امور پراخراجات ہونگے اور ان اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کن ذرائع سے آمدن ہوگی جس کو مد نظر رکھ کر عوام، تاجر اور صنعت کار سال بھر کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

ملک میں کورونا وائرس کی وباء کے بعد گزشتہ 3 ماہ سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں منجمد ہیں جس کی وجہ سے بجٹ تیار کرنا انتہائی مشکل تھا تاہم ایک خوش آئند بات تھی وہ یہ کہ امسال پاکستان کو بیرونی قرضوں کی واپسی کے حوالے سے ریلیف مل چکا ہے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بھی قرضوں کی واپسی کے حوالے سے کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

قرضوں اور سود کی ادائیگی موخر ہونے کی وجہ سے حکومت کو ملکی معیشت اور عوام کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا تھا اور اگر اس مواقع کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجاتی تو یہ تاریخ کا سب سے بہترین بجٹ ہوسکتا تھا۔

حکومت کے نئے ٹیکس عائد نہ کرنے کے دعوئے حقیقت کے برعکس ہیں، حکومت نے براہ راست ٹیکسوں کے بجائے بلواسطہ ٹیکسز لگاکراپنا کام پورا کرلیا ہے اور ٹیکس میں کمی کے حوالے سے کوئی اقدامات نظر نہیں آیا۔

اسٹاک مارکیٹ کے حوالے سے بجٹ میں کوئی پالیسی نہیں دی گئی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت کیلئے شائد اسٹاک مارکیٹ کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی۔

حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر، انجینئرنگ سیکٹر، کیمیکل سیکٹر، اسٹیل سیکٹراور سیمنٹ سیکٹر جو پاکستان کی معیشت کے بنیاد ستون ہیں ان کیلئے حکومت کو مراعات اور اصلاحات کیلئے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت تھی تاہم ان تمام شعبوں کو نظر انداز کردیا گیا۔

بجٹ کے حوالے سے ہر طبقہ کو یہ امید تھی کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونیوالے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے حکومت کوئی پیکیج ضرور دیگی جس سے متاثرہ شعبوں کی بحالی ممکن ہوسکے گی اور کاروبار کا پہیہ رواں ہوگا لیکن شومئی قسمت کہ حکومت نے متاثرہ طبقے کو یکسر نظر انداز کردیا ہے اور جب کاروبار تباہ ہوچکا ہے ایسے میں حکومت اپنے محصولات کا ہدف پورا کرنا کسی صورت ممکن نہیں نظر آتا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں انڈسٹری انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہوچکی ہے، ہوٹلز، ریسٹورنٹس، سینماز اور چھوٹی انڈسٹریاں بند ہورہی ہیںجس کی وجہ سے محصولات میں نمایاں کمی آئیگی کیونکہ معیشت کا پہیہ چلنے سے ہی ملک آگے بڑھتا ہے اور جب کاروبار ہی نہیں ہوگا تو 4.9ٹریلین ٹیکس محصولات کا ہدف قطعی پورا نہیں ہوگا۔

حکومت کورونا وائرس کی وجہ سے ہونیوالے نقصان کی دہائیاں تو دیتی ہے لیکن آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کورونا کے حوالے سے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گے اور اہم بات تو یہ ہے کہ کورونا تو گزشتہ تین ماہ سے معیشت کیلئے نقصان ثابت ہوا لیکن حکومت باقی 9 ماہ کا ہدف بھی پورا نہیں کرسکی تو آئندہ مالی سال میں ٹیکس محصولات میں اضافہ کیونکر ممکن ہے۔معیشت کی تباہی کا راگ الاپنے والے گزشتہ 9 ماہ کا حساب دیں کہ حکومت نے کورونا سے پہلے کونسا معرکہ سر کیا۔

حکومت نے ذراعت کے شعبہ کیلئے دس ارب روپے کا ریلیف دیکر اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کی مثال قائم کی ہے۔پاکستان گندم، چاول، چینی اور کاٹن کے معاملے میں خود کفیل ہے اور اس بجٹ میں  ذراعت کے شعبہ کو ترقی دینے کا موقع بھی حکومت نے گنوادیا ہے۔

پاکستان اپنی ذرعی پیدا وار میں اضافہ کرکے معاشی مشکلات سے نکل سکتا ہے کیونکہ پاکستان اگر کورونا وائرس کے بحران کے دوران اگر سنبھل گیا تو وہ صرف اپنی ذرعی پیدا وار کے بل پر ممکن ہواایسے میں ذرعی شعبہ کو دس ارب کا ریلیف مذاق ہے۔

حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں اصلاحات کو یکسر نظر انداز کیا، چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کو کوئی اہمیت نہیں دی، بڑے صنعتکار اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنی سفارشات منظور کروالیتے ہیں لیکن چھوٹے تاجر اور چھوٹے کاروباری ادارے اعلیٰ حکومتی ایوانوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے جائزہ مسائل کے حل کیلئے بھی حکومت کی طرف دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

اگر حکومت ایس ایم ایز کو ترجیح دیکر معیشت کو سہارا دے سکتی ہے کیونکہ بڑی انڈسٹریاں بھی ایس ایم ایز کے ساتھ ہی چلتی ہیں، اگر چھوٹے ادارے سامان لینا بند کردیں تو بڑی انڈسٹریوں کا بھٹہ بھی بیٹھ جائیگا اور ایس ایم ایز اپنا سرمایہ لگاکر کاروبار کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس بڑے ادارے بینکوں سے قرض لیکر کاروبار کرتے ہیں لیکن حکومت ایس ایم ایز کے بجائے قرضوں پر انحصار کرنیوالوں کو ترجیح دیتی ہے اور اگر ایس ایم ایز بڑے اداروں سے مال لینا چھوڑ دیں تو بڑے ادارے اپنا سامان سڑکوں پر رکھ کر بھی فروخت کرینگے تو کوئی ان کو نہیں پوچھے گا۔

موجودہ حکومت نے گزشتہ بجٹ میں سابقہ حکومت اور آئندہ بجٹ میں کورونا کو مورد الزام ٹھہرادیا اور آئندہ 3 سالوں میں بھی حکومت کورونا کورونا کا راگ الاپ کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہے گی۔

اس وقت ہونا یہ چاہیے کہ حکومت تباہ حال معیشت کی بحالی کیلئے راست اقدامات اٹھائے اور معیشت کو سہارا دینے کیلئے چھوٹے کاروبارکی حوصلہ افزائی کرے بصورت دیگر بجٹ کو اعداد وشمار کا ہیرپھیر کی کہا جاسکتا ہے۔

Related Posts