مقبوضہ کشمیر کا یومِ سیاہ، بھارتی ظلم و ستم اور عالمی برادری کی پراسرار خاموشی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مقبوضہ کشمیر کا یومِ سیاہ، بھارتی ظلم و ستم اور عالمی برادری کی پراسرار خاموشی
مقبوضہ کشمیر کا یومِ سیاہ، بھارتی ظلم و ستم اور عالمی برادری کی پراسرار خاموشی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج 27 اکتوبر ہے جب غاصب بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیر پر فوج کشی کی جس کے بعد ظلم و ستم کا وہ بازار گرم ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔

ٹھیک 73 برس قبل ہونے والی فوجی چڑھائی کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں آج یومِ سیاہ منایا جارہا ہے، یہی یومِ سیاہ پاکستان اور برطانیہ سمیت دُنیا کے ہر اُس ملک میں منایا جارہا ہے جہاں جہاں کشمیری موجود ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 73 سال گزر جانے کے باوجود عالمی برادری مسئلۂ کشمیر کے حل کیلئے ٹس سے مس نہ ہوئی اور اس کی خاموشی برقرار ہے۔ آئیے مسئلۂ کشمیر کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اِس پراسرار خاموشی کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟

مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 73 برس کا ظلم و ستم

غیر قانونی مقبوضہ اور عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی فوج نے سن 1947ء سے لے کر اب تک 4 لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جن میں سے 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد کا تعلق جموں سے ہے۔

کشمیر میڈیا سروس نے اِس حوالے سے رپورٹ جاری کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ 1947ء سے اب تک 35 لاکھ کشمیریوں کو بھارتی فوج نے اپنا وطن چھوڑ کر آزاد کشمیر، پاکستان اور دُنیا کے دیگر ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور کیا۔

گزشتہ 73 برس سے مسلط بھارتی فورسز کے اعدادوشمار

بلاشبہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری فوجیوں کی تعداد میڈیا رپورٹس میں 8 سے 9 لاکھ بتائی جاتی ہے، تاہم کشمیر میڈیا سروس کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق آج کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد 15 لاکھ 1 ہزار ہوچکی ہے۔

خود بھارت کے مطابق کشمیر میں فوجی اہلکاروں کی تعداد 7 لاکھ 50 ہزار ہے جبکہ پیرا ملٹری فورسز جن میں سی آر پی ایف، بی ایس ایف، سی آئی ایس ایف، آئی ٹی بی پی شامل ہیں، ان کی تعداد 5 لاکھ 35 ہزار ہے۔

کشمیر پر مسلط بھارتی پولیس کے اہلکاروں کی تعداد 1 لاکھ 30 ہزار ہے جن میں اسپیشل پولیس آفیسرز 35 ہزار اور ولیج ڈیفنس کمیٹی کے اہلکار 51 ہزار ہیں۔ اگر ان تمام اعدادوشمار کا مجموعہ حاصل کیا جائے تو وہ 15 لاکھ 1 ہزار بنتا ہے جو کشمیری عوام پر ظلم و ستم میں مصروف ہیں۔ 

ظلم و ستم کی قسمیں 

تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے کشمیر پر ظلم و ستم کی کوئی ایک قسم بھی ایسی نہیں چھوڑی جو آزمائی نہ گئی ہو۔ انسانوں کو قتل کیا جاتا ہے، بد ترین اور بھیانک ترین مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اغواء کرکے لاپتہ کردیا جاتا ہے اور اگر حریت قائدین ہوں تو نظر بند بھی کیا جاتا ہے۔

بھارتی فوج بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی عزت و ناموس کی بھی دشمن ہے۔ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، قتل و غارت اور مارپیٹ کشمیری عوام کیلئے معمول بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ظلم و ستم کی جو قسم ذہن میں آسکتی ہے، وہ کشمیریوں پر ضرور روا رکھی جاتی ہے۔ ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

آئینی حیثیت اور جغرافیائی تناسب 

گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت نے کشمیر کی آئینی حثیت تبدیل کردی، اور بھارتی آئین سے دفعہ 370 اور 35 اے ختم کردئیے جس سے کشمیر ایک علیحدہ یا متنازعہ ریاست کی بجائے غیر قانونی طورپر بھارت کا حصہ قرار پاتا ہے۔

اس کے بعد بھارت سے شہریوں کو لا لا کر کشمیر بسایا جانے لگا اور کشمیر کے باسی اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بن کر رہ گئے۔ یہ ریاستِ جموں و کشمیر کے جغرافیائی تناسب کو بدل کر یہاں اپنی مرضی کا راج قائم کرنے کی بد ترین سازش ہے۔

لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس 

بد ترین ظلم یہ کیا گیا کہ کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے ساتھ ساتھ فوجی لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا جس کے بعد کشمیریوں کو آمدورفت، ذرائع ابلاغ، ٹی وی، انٹرنیٹ اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

عوام گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ کھانے پینے کی اشیاء، زندگی بچانے والی اشیاء اور بچوں کا دودھ تک گھروں سے ختم ہوگیا۔ بے شمار لوگ فاقہ کشی کے باعث گھروں میں ہی جان کی بازی ہار گئے۔ یہ بد ترین ظلم آج بھی کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔

عالمی وباء کورونا وائرس کا بہانہ بنا کر بھی کشمیریوں کو زدوکوب کیا گیا۔ کہا گیا کہ گھروں سے باہر نکلنے سے کورونا وائرس پھیل رہا ہے، اس لیے لاک ڈاؤن میں توسیع کردی گئی ہے۔ حریت رہنماؤں کے مطابق  مودی سرکار کشمیریوں کے سانس لینے پر بھی پابندی لگانا چاہتی ہے۔ 

یومِ سیاہ کے مقاصد

ہر بار جب کسی کشمیری کو شہید کیا جاتا ہے تو اسے دفن کرتے وقت پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹا جاتا ہے، کشمیری مظاہرہ کرتے ہیں تو کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے ہیں اور اگر بھارتی فوج ظلم کرتی ہے تو اس پر پتھراؤ بھی کرتے ہیں۔

سب سے بڑا مقصد کشمیر کی بھارتی استحصال اور ظلم و ستم سے آزادی ہے، کشمیری حقِ خود ارادیت چاہتے ہیں جو آج کے یومِ سیاہ کا بھی سب سے بڑا مقصد ہے۔

حقِ خود ارادیت سے مراد یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصوابِ رائے کا حق دیا جائے، عوام خود فیصلہ کریں کہ وہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ دیکھنا چاہتے ہیں، بھارت کا یا پھر آزاد ریاست رہنا چاہتے ہیں؟

عالمی برادری کی خاموشی کی وجوہات

دُنیا بھر کے ممالک کسی ایک شخص یا قوم کی مرضی کی بجائے مفادات کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں اور یہی جمہوریت کا سب سے بڑا اصول ہے کہ نام تو عوام کا استعمال ہوتا ہے لیکن مرضی وڈیروں اور آقاؤں کی چلتی ہے جو مفادات نہ ہونے پر اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلتے۔

اگر پاکستان کشمیر کو آزاد کرنے کیلئے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دے تو پاک بھارت جنگ چھڑ جائے گی جو تیسری جنگِ عظیم کی صورت بھی اختیار کرسکتی ہے کیونکہ ایک طرف پاکستان کے ساتھ چین، ترکی اور ایران جیسے ممالک ہیں تو دوسری جانب بھارت بھی اکیلا نہیں ہے۔

واقفانِ حال خوب جانتے ہیں کہ بھارت کی پشت پر امریکا اور اسرائیل موجود ہیں۔ اسرائیل خود بھی فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور امریکا نے عراق کا جو حال کیا، وہ ہمارے سامنے ہے۔

ایسے میں دُنیا کا ہر ملک جنگ کی آگ میں جلنے کی بجائے امن و استحکام کو ترجیح دیتا ہے جس کی قیمت یہی پراسرار خاموشی ہے جو گزشتہ 73 برسوں سے جوں کی توں چلی آرہی ہے۔ 

حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ کا پیغام

کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک نے آج یومِ سیاہ کے موقعے پر اپنے پیغام میں کہا کہ بھارتی فوج مظلوم کشمیریوں کو شہید کر رہی ہے، قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کر رہی ہے اور ان کی جائیدادیں اور گھر تباہ کر رہی ہے۔

حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ نے کہا کہ 27 اکتوبر جدوجہدِ آزادئ کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب بھارتی فوج نے ہم پر غلامی کی تاریک رات مسلط کی۔ بھارت نے کشمیر میں لاشوں کا ڈھیر لگا دیا ہے۔

مشال ملک نے کہا کہ کب تک کشمیریوں کو قید اور قتل کیا جائے گا؟ یہ ظلم و ستم کس روز تک جاری رہے گا؟ بہت جلد غاصب بھارت اور پوری دنیا ہم سے ہار مان لے گی۔ جلد ہماری قربانیاں رنگ لائیں گی اور کشمیر بھارت سے آزاد ہوجائے گا۔ ہم آزادی کا سورج ضرور دیکھیں گے۔ 

 

Related Posts