راشد منہاس کا یومِ پیدائش

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

راشد منہاس کا 73واں یومِ پیدائش آج منایا جارہا ہے جن کو ”کمسن شہید“ اور نشانِ حیدر حاصل کرنے والے قوم کے بہادر سپوت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

آج سے نصف صدی قبل ملک و قوم کیلئے شہادت کا جام نوش کرنے والے راشد منہاس شہید نے جذبۂ حب الوطنی کو ایک بار پھر ہمارے رگ و پے میں جلا بخش دی ہے، ملک کیلئے جان دینا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی، اس کیلئے جوش و جذبہ اور ہمت بھی ضروری ہے اور ایمان و اعتقاد بھی۔

آج بھی قوم کے بے شمار بہادر سپوت ملک و قوم کی سلامتی کیلئے ملک کی سرحدوں پر دشمن کے خلاف سینہ سپر ہیں اور کتنے ہی نامور جرنیل، سپاہی اور فوجی افسران قوم کی حرمت پر مر مٹے، تاہم نشانِ حیدر کم ہی لوگوں کے نصیب میں آیا جو صرف بے مثال بہادری کا مظاہرہ کرنے پر ہی ملا کرتا ہے۔

نشانِ حیدر کو جنگ کے دوران دشمن کے قبضے سے حاصل کیے گئے اسلحے کو پگھلا کر تیار کیا جاتا ہے جس میں 20 فیصد مقدار سونے کی بھی شامل ہوتی ہے اور اب تک راشد منہاس سمیت ملک کے 10 بہادر سپوت اپنی بے مثال بہادری سے نشانِ حیدر کا اعزاز پانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

نشانِ حیدر کا اعزاز پانے کیلئے کسی بھی فوجی افسر یا سپاہی کا شہید ہونا ضروری نہیں ہوتا، لیکن حیرت انگیز طور پر نشانِ حیدر حاصل کرنے والے قوم کے تمام (10) سپوت وطن کی حرمت پر قربان ہو گئے۔

حالانکہ جب ایک بیٹا شہید ہوتا ہے تو ایک باپ، ماں، بہن یا بیٹی اپنے اس بیٹے، بھائی یا باپ سے محروم ہوجاتی ہے جو ایک بڑے افسوس اور رنج کا مقام ہے لیکن اسلام نے ہمیں یہی سمجھایا ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں، انہیں مردہ نہ سمجھا جاسکتا ہے، نہ کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کا تصور کرسکتا ہے۔

خلفائے راشدین میں شامل حضرت علی کرم اللہ وجہ بے مثال جرأت و بہادری اور شجاعت اور دلیری کی جیتی جاگتی مثال ہیں جن کی شخصیت، ہمت اور بہادری کو نظر میں رکھتے ہوئے پاک فوج کے اعلیٰ ترین عسکری اعزاز کا نام ”نشانِ حیدر“ یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہ کا نشان رکھا گیا۔

آج ہی کے روز یعنی 17فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہونے والے راشد نہاس نے 20 اگست 1971 کے روز شہادت پائی اور حب الوطنی کی ایک یادگار مثال قائم کی جسے کوئی کبھی بھلا نہیں سکے گا۔ انہوں نے ملٹری ہسٹری ڈپارٹمنٹ، یونیورسٹی آف کراچی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔

مارچ 1971 میں ہی پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کرنے والے راشد منہاس جی ڈی پائلٹ بھرتی ہوئے اور 20 اگست کے روز اپنی زندگی کی ایک ایسی اڑان بھری جس سے قبل انسٹرکٹر مطیع الرحمٰن نے چھلانگ ماری اور راشد منہاس کے طیارے میں سوار ہوگیا، حالانکہ طے شدہ شیڈول کے مطابق اڑان راشد منہاس کو اکیلے بھرنی تھی۔

عملی طور پر مطیع الرحمٰن راشد منہاس کا طیارہ اپنے قبضے میں کرچکا تھا، اور راشد منہاس نے اسی دوران وہ دستاویزات دیکھ لیں جو مطیع الرحمٰن اپنے ہمراہ بھارت لے جانا چاہتا تھا۔ راشد منہاس نے پی اے ایف مسرور بیس سے رابطہ کیا اور 11 بج کر 35 منٹ پر پاک فضائیہ کو آگاہ کیا کہ میرا طیارہ اغواء ہوچکا ہے۔

اسی وقت مطیع الرحمٰن اور راشد منہاس کے درمیان طیارے کے حصول کیلئے ایک جنگ چھڑ گئی۔ اگر راشد منہاس اپنی جان بچاتے تو مطیع الرحمٰن ملکی سرحد عبور کرکے بھارت جا پہنچتا۔ اس سے ملکی سلامتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ راشد منہاس نے مطیع الرحمٰن کو اس کے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا۔

جب طیارہ بھارتی سرحد سے محض 40 کلومیٹر کی دوری پر رہ گیا تو راشد منہاس نے طیارے کا رخ زمین کی طرف کرکے مطیع الرحمٰن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ نتیجتاً طیارہ تیزی سے زمین سے جا ٹکرایا اور تباہ ہوگیا۔ دونوں ہی افراد میں سے کوئی زندہ نہ بچ سکا، تاہم مطیع الرحمٰن ہلاک اور راشد منہاس شہید ہوگئے۔

مطیع الرحمٰن کی غداری اسے کوئی بھی فائدہ پہنچانے میں ناکام رہی اور راشد منہاس اپنی جان خالقِ حقیقی کے سپرد کردینے کے باوجود بھی آج تک زندہ ہیں۔ ان کے متعلق ملک کے نصاب اور پاک فوج کی تاریخ میں ایسے ایسے مضامین موجود ہیں جو ان کی عظیم قربانی رہتی دنیا تک اہلِ دنیا کو یاد دلاتے رہیں گے۔ کوئی انہیں کبھی بھول نہیں سکے گا۔

Related Posts