بلاول بھٹو کا فون ٹیپ کرنیکا مطالبہ، کیا شاہ محمود قریشی کا سیاسی کیریئر واقعی مشکوک ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Bilawal demands to tap phones: Is Qureshi's political career suspicious?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مسلسل کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے، دونوں اطراف سے لفظی گولہ باری کے ساتھ ساتھ باقاعدہ دست و گریباں ہونے کے واقعات بھی تواتر کیساتھ پیش آتے رہے ہیں تاہم گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان ذاتی نوعیت کے حملے دیکھنے میں آئے اور دونوں سیاسی رہنماؤں نے تمام سیاسی و اخلاقی حدود پار کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ذات کو نشانہ بنایاجس کے بعد ایک بار پھر اداروں کی مداخلت اور سیاست کو نئی ڈگر پر ڈالنے کی صدائیں اٹھنے لگی ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اچھی طرح جانتا ہوں وہ وزیراعظم کیلئے خطرہ بننے والے ہیں، وزیراعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آئی ایس آئی کو شاہ محمود قریشی کے فون ٹیپ کرنے کا کہیں کیونکہ انہوں نے ہمارے دور میں وزیر خارجہ ہوتے ہوئے دنیا بھر میں مہم چلائی کہ یوسف رضا گیلانی کو ہٹاکر انہیں وزیراعظم بنایا جائے۔

شاہ محمود قریشی
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے چیئرمین پیپلزپارٹی کو ایوان میں جواب دیتے ہوئے کہاکہ بلاول بھٹو زرداری کوبھی جانتا ہوں اوران کے بابا کو بھی جانتا ہوں، بلاول بھٹو پرچی لیکر آتے ہیں، چابی لگتی ہے اور آٹو پر لگ جاتے ہیں،شاہ محمود قریشی نے چیئرمین پی پی پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں آپ، سندھ میں جہاں آپ کی حکومت ہے وہاں قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا، سندھ کا وزیر خزانہ اختتامی تقریر کیے بغیر رخصت ہوجاتا ہے، یہاں ہم سے تقاضے کیے جاتے ہیں، جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے جبکہ سندھ میں قائمہ کمیٹیوں میں اپوزیشن کی نمائندگی ہی نہیں دی گئی۔

شاہ محمود قریشی کا سیاسی کیریئر
1۔مخدوم شاہ محمود قریشی ضیاء الحق کے دور میں 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات میں ملتان سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور1986ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔
2۔ 1988 میں ضیاء الحق کی وفات کے بعد نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ کے دھڑے میں شامل ہوگئے جو بعد میں مسلم لیگ (ن) بن گئی اور 1988 کے عام انتخابات میں ملتان سے دوسری مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور نومبر 1988 سے اگست 1990 تک وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی پنجاب کابینہ کا حصہ رہے۔
3۔1990 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے طور پر تیسری بارپنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1990 سے 1993 تک وزیر اعلیٰ منظور وٹو کی صوبائی کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
4۔شاہ محمود قریشی نے 1993 میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی،نومبر 1996 میں پی پی پی کے ترجمان مقرر ہوئے۔
5۔1993 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر پہلی بار ملتان سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے اوروزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں پارلیمانی امور کے وزیر مملکت کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
6۔شاہ محمود قریشی کو 1997 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے مخدوم جاوید ہاشمی نے شکست دی ۔
7۔شاہ محمودقریشی نے 2000 سے 2002 تک ملتان کے ضلعی ناظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں،میئر کی مدت کے دوران انہوں نے متعدد ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کی۔
8۔2002 میں ملتان سے پی پی پی کی ٹکٹ پر دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔
9۔2006 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو نے شاہ محمود قریشی کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر مقرر کیا۔
10۔2008 کے عام انتخابات میں شاہ محمود قریشی ملتان سے تیسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں شاہ محمودقریشی وزیر اعظم کے لئے ممکنہ امیدوار تھے تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں انہیں کو وزیر خارجہ کا عہدہ دیا گیاتاہم 2011 میں وزیرخارجہ کے قلم دان واپس لیکر پانی و بجلی کی وزارت دینے کی پیشکش ہوئی لیکن شاہ محمود قریشی نے یہ عہدہ لینے سے انکار کردیا۔

تحریک انصاف میں شمولیت
ملتان سے یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی کے ساتھ تیسرے نامور سیاستدان شاہ محمود قریشی نے نومبر 2011 میں پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی رکنیت بھی چھوڑی دی اورگھوٹکی جلسے میں تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردیا اور قومی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور پہلے نائب چیئرمین مقرر ہوئے جو عمران خان کے بعد پارٹی کی سب سے اہم پوزیشن سمجھی جاسکتی ہے۔ 2013 میں شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے۔

سن 2018ء میں تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری اور شاہ محمود قریشی ملک کے وزیرخارجہ مقرر ہوگئے۔ فواد چوہدری اور اسد عمر کے علاوہ وفاقی کابینہ کے دیگر اراکین کو بھی عہدوں سے ہٹایا گیا اور قلمدان بھی تبدیل کیے جاتے رہے لیکن شاہ محمود قریشی جو وزیر خارجہ مقرر ہوئے تھے، بدستور وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں جسے ان کی بڑی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔

حاصل کلام
بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں شاہ محمود قریشی جیسے زیرک سیاستدان، سینئر سیاسی رہنما اور روحانی پیشوا پر تنقید کی جو ایک قومی سطح کی سیاسی پارٹی کے چیئرمین کو زیب نہیں دیتی کیونکہ شاہ محمود قریشی کا ماضی ضرور پیپلز پارٹی کی چھتر چھایہ میں گزرا تاہم بلاول بھٹونے خود اعتراف کیا کہ وہ شاہ محمود قریشی کو بچپن سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔

ایسی صورتحال میں کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ بلاول بھٹو زرداری اگر تنقید بھی کرتے تو وہ ادب و احترام اور باہمی رواداری کے حجاب میں ہوتی جس پر شاہ محمود قریشی بھی انہیں جواب دینے میں خوشی محسوس کرتے، تاہم چیئرمین پیپلز پارٹی نے ایسا نہیں کیا۔

بے شک شاہ محمود قریشی کسی دور میں پیپلز پارٹی کے صوبائی عہدیدار بھی رہے ہیں، تاہم آ ج ان کا مقام اس سے کہیں آگے ہے۔ وزیر خارجہ کا احترام لازمی ہے، شاہ محمود قریشی کو بھی اپنے لفظوں کا انتخاب کرتے ہوئے پارلیمانی آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور جواب میں ان کو تضحیک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

Related Posts