بلاول بھٹو کا دورہ بھارت: کامیاب یا ناکام ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سب سے پہلے تو یہ وضاحت کہ تکنیکی طور پر یہ بلاول بھٹو کا دورہ بھارت نہیں تھا۔ اگرچہ وہ بھارت گئے، مگر اس کا مقصد بھارتی شہر گوا میں ہونے والی کثیر الملکی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)کے وزرا خارجہ کے اجلاس میں شرکت تھی ۔ چونکہ اس سال بھارت اس کانفرنس کا منتظم اور صدر ہے، اس لئے یہ اجلاس بھارت میں ہوا۔ شرکت کے لئے بھارت جانا مجبوری تھا، اسے باقاعدہ دورہ بھارت نہیں کہا جا سکتا۔

شنگھائی تعاون تنظیم
شنگھائی تعاون تنظیم بنیادی طور پر روس اور چین کا اقدام (Initiative)تھا۔ پہلے اس میں پانچ ممبر ممالک(روس، چین، کرغستان،قزاقستان، تاجکستان) تھے اور اسے شنگھائی فائیو کہا جاتا ۔ 2001میں ازبکستان اس کا حصہ بنا، چند سال قبل پاکستان اور بھارت کو بیک وقت اس کا ممبر بنایا گیا۔ یوں اس کے آٹھ ممبر ز ہوگئے، اب ایران کو نویں (9th) ممبر کے طور پرشامل کیا گیاہے۔افغانستان، بیلاروس اور منگولیا آبزرور ممالک جبکہ ڈائیلاگ پارٹنر کے طور پرترکی، آزربائیجان، آرمینیا، نیپال، سری لنکا،کمبوڈیا شامل ہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم میں گو بھارت شامل ہے، مگر بہرحال اس پر چین اور روس کا گہرا اثر ہے، چینی اور روسی اس کی آفیشل زبانیں بھی ہیں۔ امریکہ نے اس کا ممبر بننے کی کوشش کی ،مگر اسے انکار کر دیا گیا۔ چین کی دلچسپی ہے کہ ریجنل تعاون کی اس تنظیم کو پروموٹ کیا جائے ۔ ہر سال اس کا صدر تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اجلاس بھی اسی مناسبت سے وہاں ہوتے ہیں۔ پاکستان کی باری پر اس کے سالانہ اجلاس پاکستان میں بھی ہوں گے۔

بلاول کووہاں جانا چاہیے تھا؟
یہ اہم سوال ہے، اس پر مختلف آرا ہوسکتی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بلاول بھٹو کے دورہ پر تنقید کی ہے۔ فواد چودھری، اسد عمر اور شیریں مزاری بھی ناقد رہیں، البتہ تحریک انصاف ہی کے چیئرمین اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اس دورے کے حق میں تھے۔ میں نے پاکستان کے سابق سفیروں اور تجربہ کار ڈپلومیٹس کی آرا اور گفتگو سنی ہے۔ لگ بھگ سب کی یہی رائے تھی کہ پاکستانی وزیرخارجہ بلاول بھٹو کو وہاںجانا چاہیے تھا۔اس کی دو تین وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔

تین وجوہات
ا: چین کی وجہ سے پاکستان کی شمولیت لازمی تھی۔ چین اور روس چاہتے ہیں کہ اس فورم کو آگے بڑھاوا ملے اور ان کی دلچسپی اور خواہش پر ہی پاکستان نے جانے کا فیصلہ کیا۔ بلاول کی جگہ کوئی اور وزیرخارجہ ہوتا تو اس نے بھی جانا ہی تھا۔

2 : پاکستانی فارن آفس، اسٹیبلشمنٹ اور عمومی طور پر سفارتی ماہرین میں یہ تاثر تھا کہ ہمیں اس فورم کو بھارت کے لئے کھلا نہیں رکھنا چاہیے۔ بھارتی جارحانہ سفارت کاروں (Hawks)کی یقینا یہ خواہش ہوگی کہ پاکستان نہ آئے تاکہ اس فورم پراور بعد میں میڈیا پر پاکستانی نقطہ نگاہ سے کچھ بھی نہ آسکے۔ ہمارے وہاں جانے سے امکان تھا کہ کوریج کا ایک حصہ ہمیں ملے گا۔

3: یہ خیال بھی تھا کہ ممکن ہے اس سے کچھ تھوڑا بہت بریک تھرو ہوجائے، برف پگھل جائے ۔کہا جا رہا تھا کہ بھارت آداب میزبانی نبھاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دیگر ممبرممالک والا خوشگوار سلوک روا رکھے گا ۔یہ سوچ بھی تھی کہ بھارت نے دعوت نامہ بھجوایا ہے تو کچھ سوچا بھی ہوگا۔(ہم بھول گئے کہ دعوت نامہ بھجوانا اس کی مجبوری تھی کہ بطورمیزبان ہر ممبر ملک کو مدعو کرنا تنظیم کے رولز کے اعتبار سے لازمی تھا۔ )

بلاول کی پرفارمنس کیسی رہی؟
پرفارمنس کے اعتبار سے بلاول کا دورہ برا نہیں رہا۔ نوجوان بلاول نے ٹھیک گفتگو کی۔ کانفرنس میں بھارتی وزیرخارجہ کی تقریر کے بعد پاکستانی سفارت خانہ نے بلاول کی تقریر میں تبدیلی کی اور انڈینز کی باتوں کا جواب شامل کیا۔ یہ مناسب تھا۔

بلاول نے البتہ جس طرح ہاتھ جوڑ کر آداب، خیرمقدم وغیرہ کیا، اس سے گریز کیا جاتا۔ بلاول کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سندھی کلچر ہے کہ انکسار اور احترام سے ملنے والوں کے ساتھ یوں ہاتھ باندھ کر ملا جاتا ہے۔ بات غلط نہیں، یہ بات سندھی کلچر میںملتی ہے، مگر بلاول وہاں سندھ کا نمائندہ نہیں بلکہ پاکستانی نمائندہ تھا۔ پاکستانی وزیرخارجہ کے طور پر اسے انہی آداب اور طریقوں کو فالو کرنا چاہیے تھا جو کہ پاکستان کی شناخت اور پہچان ہے۔

پاکستان کی پون صدی کی تاریخ میں کبھی کسی نے ایسا نہیں کیا۔ سندھ کے ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری وغیرہ سربراہ رہے ہیں، بے شمار غیر ملکی دورے انہوں نے کئے، کبھی ایسا نہیں کیا۔ ہندوکلچر کا البتہ حصہ ہے کہ نمستے کیا جائے۔ بلاول کو شائد کسی نے یہ بات درست طریقے سے نہیں سمجھائی ۔ خیر یہ کوئی بڑا ایشو نہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں باہمی مسائل اور تنازعات کو نہیں اٹھایا جا سکتا ، اس لئے وہاں کشمیر پر بات نہیں کی گئی ا ور ایسا قابل فہم ہے۔ البتہ بلاول نے بعد میں پریس کانفرنس کی، جس کا شائد بھارتی صحافیوں نے بائیکاٹ کیا، پی ٹی وی کا نمائندہ اور ساتھ جانے والے پاکستانی صحافی شریک ہوئے، اس میں بلاول نے کشمیر پر بات کی اور عمدگی سے پاکستانی موقف کی وضاحت کی۔ میرا خیال ہے کہ بھارتی وزیرخارجہ کی سخت گفتگو کے ردعمل میں ایسا کیا گیا۔

بھارتی میڈیا ہاﺅس انڈیا ٹوڈے سے انٹرویو میں بلاول نے اچھے طریقے سے بات کی اور بعض تند وتیز سوالات کا تحمل سے جواب دیا۔ بلاول نے جب بھارتی پراکسی وار اور کلبھوشن کا ذکر کیا تو بھارتی صحافی نے اونچی آواز میں بات کی اور اجمل قصاب کا طعنہ دیا۔ بلاول نے تب تحمل سے کہا کہ میں آپ کو حقائق بتا رہا ہوں ، آپ ہائپر کیوں ہو رہے ہیں۔ یہ راﺅنڈ اچھا رہا۔

بھارتی رویہ
بھارتی رویہ نہایت سخت، نامناسب اور غلط رہا۔ آداب میزبانی کے بھارت نے پرخچے اڑا دئیے۔ انہوں نے شائد شروع ہی سے طے کر رکھا تھا کہ بارہ سال بعد ایک پاکستانی وزیرخارجہ بھارت آ رہا ہے، مگر اس کے دورے کو سبوتاژ کرنا ہے ، کہیں دنیا کو تعلقات میں بہتری آنے کا تاثر نہ مل جائے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے صحافیوں سے گفتگو میں بہت سخت جملے کہے اور بلاول اور پاکستان کی تضحیک کی کوشش کی۔ سی پیک کو بھی ہدف بنایا۔ کانفرنس کے دوران بھی بھارتی رویہ ناخوشگوار ہی رہا۔ بھارت شائد یہ نہیں چاہتا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی سمٹ کانفرنس میں پاکستانی وزیراعظم شریک ہوں۔ فضا ہموار کرنے کا کوئی اشارہ بھارت نے نہیں دیا۔

برف نہیں پگھل سکی
پاکستانی فارن آفس اور اسٹیبلشمنٹ میں جن حلقوں کا خیال تھا کہ اس دورے سے برف پگھل سکتی ہے یا وہ سوچتے تھے کہ ممکن ہے بھارت کا رویہ خوشگوار ہو۔ امید ہے ان کی تمام خوش فہمیاں دور ہوگئی ہوں گی۔ بھارت نے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کو کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کی سمٹ کانفرنس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ سری نگر میں ہو رہی ہے۔ پاکستانی وزیراعظم کو اس پر مزید سوچنا ہوگا کہ وہ جائیں یا نہیں۔

دورہ کامیاب رہا یا ناکام ؟
اس دورے کو کامیاب تو نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اسے ناکام کہہ سکتے ہیں۔ بس یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان نے اس اجلاس میں چین اور روس کی وجہ سے لازمی شرکت کرنا تھی،سو کر لی۔

اسے کامیاب تب کہتے جب بھارتی رویہ خوشگوار ہوتا۔ بھارتی وزیرخارجہ اپنی تقریر میں کوئی مثبت اشارہ کرتا، برف پگھلنے کا اشارہ ۔ مستقبل میں پاک بھارت تعلقات بہتری کی کوئی امید ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا ۔ اس کے بجائے نہایت سخت ، بے لحاظ ، بدتمیزی کے انداز میں پاکستان مخالف گفتگو کی گئی ۔
اس ردعمل اور جواب پر خوش کیسے ہوا جا سکتا ہے؟ اسے ہم اپنی کامیابی کیسے کہہ سکتے ہیں؟

بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ دورہ اس اعتبار سے کامیاب رہا کہ انہوں نے وہاں پر پاکستان کا موقف بیان کیا ہے ۔ اگر اس بات کو وہ اپنی کامیابی کہتے ہیں تو کہتے رہیں، مگر آج کے دور میں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے دہلی میں اخبارنویسوں سے بات کی یا اسلام آباد میں ۔خبر تو ہر جگہ پہنچ ہی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹو بھارت یہ باتیں سنانے گئے تھے ؟ ظاہر ہے ایسا نہیں۔ وہ تو اچھے تعلقات کی آس لے کر ، کسی بریک تھروکی خفیف سی امید لے کر گئے تھے۔ ایسا مگر نہیں ہوا ۔ اس اعتبار سے تو کامیابی نہیں ۔

مکمل ناکامی بھی البتہ اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ فارن آفس نے اپنے تجزیے میں اس نتیجہ کی امید رکھی ہوگی۔ جو دو تین نتائج کی توقع انہیں ہوگی، ان میں سے ظاہر ہے ایک یہ بھی ہوگا۔ اس لئے جو ہوا، اس پر ہمیں ناخوش یا ڈپریس نہیں ہونا چاہیے۔ اٹس پارٹ آف دا گیم۔

خوش فہمیوں کی چادر میں لپٹے حقائق
پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے سے پہلے ن لیگ اور پی پی کے لیڈروں اور ان کے ماہرین یہ بات بار بار کہتے تھے کہ وزیراعظم عمران خان کی وجہ سے پاکستان تنہا ہوگیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ خان کی ناتجربہ کاری نے مسائل پیدا کر دئیے ہیں اور دوست ممالک ناراض ہیں، بھارت سخت مخالف ہوچکا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
پی ڈی ایم کے حامی اخبارنویسوں، اینکرز نے یہ امیج بنا دیا تھا کہ اگر پی پی ، ن لیگ کے تجربہ کار لوگ حکمران بنے تو سب کچھ بدل جائے گا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہوجائیں گے ،تجارت شروع ہوجائے گی، دوست ممالک بھی دل کھول کر امداد دیں گے، یوں ترقی اور خوشحالی کا ایک ایسا دور چلے گا جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی، وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب کچھ غلط، خام اور بے بنیاد پروپیگنڈہ ثابت ہوا۔ ہر ایک کو ایک سال میں پتہ چل گیا کہ دوست ممالک صرف چہرہ دیکھ کر مہربان نہیں ہوجاتے اور نہ ان کی ناراضی کسی خاص نام یا چہرے سے تھی۔ ان کی سردمہری کی وجہ پاکستا ن کا بطور ریاست کمزور ہوجانا اور بار بار دست طلب لے کر ان کے پاس جانا ہے، وہ مدد کر کر کے تنگ آ چکے ہیں۔

اسی طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ عمران خان ہو یا شاہ محمود قریشی یا پھر پی ڈی ایم کا شہباز شریف اور بے نظیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو، بھارتی خارجہ پالیسی میں اتنی آسانی سے تبدیلی نہیں آ سکتی۔ ریاستی پالیسیاں ذاتی تعلقات، دوستیوں اور مخالفتوں پر نہیں بنائی جاتیں اور نہ ہی تبدیل ہوتی ہیں۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو کی بھارت میں بالکل ہی پزیرائی نہیں ہوئی، بھارتی حلقوں، سفارتی حلقوں، بھارتی میڈیا ، تجزیہ کار، لکھاری، انٹیلی جنشیا،کسی نے بھی بلاول بھٹو کا ساتھ نہیں دیا۔ ان کے حق میں کلمہ خیر نہیں کہا، ان کی ستائش نہیں کی۔ جن کا بے نظیر بھٹو سے اچھا تعلق تھا، وہ بھی اس کے بیٹے کے لئے مہربہ لب رہے ۔ یہ آج کے حقائق ہیں۔ تلخ حقائق۔ خوش گمانیوں کی چادر میں انہیں لپیٹنے سے چھپایا نہیں جا سکتا۔

پی ڈی ایم ہو یا تحریک انصاف ، ان کے حامیوں کو یہ بنیادی باتیں سمجھنا اور سیکھنا ہوں گی۔

Related Posts