بلوچستان کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کورونا وائرس وبائی بیماری کے خلاف جاری لڑائی اور ایک بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے درمیان ، تحریک انصاف کی حکومت کو اس وقت دھچکا لگا جب بی این پی مینگل نے اپنے مطالبات کی عدم تکمیل اور بلوچستان کی طرف توجہ نہ دینے پر حکومتی اتحاد چھوڑ دیا۔

بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے 2018 کے عام انتخابات کے بعد دستخط کیے گئے اپنے 6 نکاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے میں حکومت کی ناکامی پراتحاد چھوڑنے کا اعلان کیا۔

اخترمینگل کے مطابق صوبے میں صورتحال بگڑ رہی ہے ، امن وامان خراب ہوتا جارہا ہے اور لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

بی این پی کی خواہش ہے کہ افغان امن عمل کی طرح بلوچستان کے حوالے سے بھی ایک امن کانفرنس بلائی جائے۔ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ حکومت بلوچستان کے مقابلے میں کشمیر کے بارے میں زیادہ فکر مند ہے جبکہ پارلیمنٹ میں گندم اور چینی کے بحران پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے بلوچ عوام کے مسائل پرکوئی بات نہیں کی جارہی،ایک بڑے بحران سے بچنے کے لئے صوبوں کی محرومیوں کو دور کرنا ہوگا۔

جیسا کہ اخترمینگل نے بتایا کہ بلوچستان میں کورونا وائرس کا مناسب علاج بھی نہیں ہورہا، صرف کوئٹہ میں طبی سہولیات کسی حد تک دستیاب ہیں۔ صوبے کے کسی دوسرے حصے میں بھی وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں دیکھی جاسکتی ہے۔

وہاں کے بچوں کے پاس انٹرنیٹ سروسز نہیں ہیں اور وہ آن لائن کلاسزنہیں لے سکتے ۔ لاپتہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت نے اپنے اتحادی پارٹنر کے خدشات دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کو ناراض اتحادیوں کو منانے کام سونپا گیا ہے۔

مذاکرات ضروری ہیں لیکن حکومت کو اب ان کے تحفظات دور کرنے کے لئے معاہدے پر پیشرفت کرنا ہوگی اور محض بیانات محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے کافی نہیں ہوں گے۔

تحریک انصاف کی حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں  پر کھڑی ہے اور تمام اتحادیوں کو راضی رکھنے کیلئے حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، بی این پی مینگل کے پاس قومی اسمبلی میں چار نشستیں ہیں جن کو پی ٹی آئی کو اپنے ساتھ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ایم کیو ایم کے ساتھ بھی تھا تاہم ایم کیوایم بیک ڈور مذاکرات کے بعد مارچ میں واپس اتحاد میں شامل ہو گئی تھی۔

تحریک انصاف نے مسلم لیگ ق کو خوش کرنے کے لئے بھی جدوجہد کی ہے جو پنجاب میں زیادہ اثر و رسوخ کا مطالبہ کرتی ہے۔

سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے عوام بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں اور حکومت کو ان علاقوں کی زیادہ فکر ہے جہاں وہ اقتدار رکھتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو بلوچستان پر زیادہ توجہ دینی چاہئے اور تمام حقیقی خدشات کو دورکرنا چاہئے اور صوبے میں بھی امن و خوشحالی کی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

Related Posts