ذاتیات اورجادو ٹونے کی بازگشت، کیاپاکستان کی سیاست پستی کی جانب گامزن ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

قیام پاکستان سے آج تک ملک خداداد سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے اور ہزارہا نشیب و فراز دیکھنے کے بعد آج بھی پاکستان کے سیاست دان عوامی فلاح کی  بجائے ذاتیات کی سیاست کے بھنور سے نہیں نکل سکے۔

کئی سال قبل شروع ہونیوالاخواتین کی ذات پر بہتان تراشی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جبکہ اب تو صورتحال یہ ہے کہ مخالفین کے گھروں کی خواتین کو بھی اپنی سیاست کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں عوام اور سنجیدہ حلقوں میں یہ سوال پایا جاتا ہے کہ کیاپاکستانی سیاست پستی کی جانب گامزن ہے۔

سیاست کی اقسام

سیاست کئی طرح کی ہوسکتی ہے، یعنی اقتدار کے حصول،حقوق کے حصول ،مذہبی اقدار کے تحفظ ،جمہوری روایات کے تحفظ یاذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بھی سیاست کی جاتی ہے اور ہم نے دیکھاہے کہ  جن ممالک میں سیاسی استحکام ہووہاں تمام انسانی حقوق بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں سیاست ذاتیات تک محدود رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کسی بھی بڑی جماعت کی طرف  دیکھیں تو ان میں منشور کی جگہ  شخصیات کو زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے ۔

مفادات کی سیاست

سیاست میں کبھی کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا، عوامی مفادات کے نام پر اکثر دیرینہ مخالفین باہم شیرو شکر ہوجاتے ہیں جیساکہ ہم نے دیکھا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے وزیراعظم عمران خان ایم کیوایم کو دہشت گرد جماعت اور ق لیگ کو ڈاکوؤں کی پارٹی قرار دیتے تھے لیکن اقتدار کیلئے انہوں نے نہ صرف ان دونوں جماعتوں سے ہاتھ ملایا بلکہ ماضی کے تمام گناہوں کو بھی بھلادیا۔ اسی طرح  پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی اور ق لیگ کی قربتوں کا سلسلہ بھی ماضی میں بخوبی چلتا رہا ہے۔

الزام تراشی

پاکستان کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہاں حکمران جماعت عوام کو اپنی کارکردگی بتانے کی  بجائے ہمیشہ اپنی ناکامیاں سابقہ حکومتوں پر ڈال کر پہلو بچالیتی ہے اور الیکشن کے دوران عوام کو اپنے کارنامے گنوانے کی  بجائے دوسروں پر الزام تراشی کرکے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتی ہے۔

سیاست میں الزام تراشی تو قیام پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی لیکن اس میں شدت 90 ء کی دہائی میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران دیکھنے میں آئی۔

ن لیگ نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی ذات پر انتہائی نازیبا الزامات لگائے، ان کو بدترین القابات سے نوازا گیا اور ان کی کردار کشی کی جہاں سے سیاست میں خواتین پر کیچڑ اچھالنے  کا سلسلہ مضبوط ہوا۔

ن لیگ کی سیاست

پاکستان مسلم لیگ ن ان  دنوں اپنی بقاء کی جنگ لڑرہی ہے، نوازشریف کی 3 بار اقتدار سے بے دخلی کے بعد سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اداروں کیخلاف الزام تراشی کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں اور ججوں کی نازیبا ویڈیوز بھی ن لیگ ہی منظر عام پر لائی۔

گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے جادو ٹونے  کے حوالے سے الزامات عائد کرکے ایک بار پھر ملکی سیاست میں گھریلو خواتین کو سربازار لاکھڑا کیا۔

بشریٰ عمران

مریم نواز کا اشارہ خاتون اول بشریٰ بی بی کی طرف تھا۔ اقتدار میں آنے سے قبل چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بشریٰ بی بی سے شادی کی ۔ بشریٰ عمران یا بشریٰ بی بی عمران خان کی اہلیہ اور 18 اگست 2018ء سے پاکستان کی خاتون اول ہیں۔ بشریٰ بی بی تصوف کے بہت زیادہ قریب ہیں۔ شادی سے قبل وہ عمران خان کی روحانی پیشوا بھی رہ چکی ہیں۔

 پاکپتن میں واقع بابا فرید کے مزار پر  ملاقات کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی رشتہ ازدواج میں  منسلک ہوئے اور عمران خان کے سربراہ مملکت ہونے کے باوجود بشریٰ بی بی بیشتر وقت گھر میں رہنا پسند کرتی ہیں اور لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا اور تقریبات میں جانا زیادہ پسند نہیں کرتیں لیکن اس کے باوجود مخالفین ان کی ذات پر بہتان تراشی کرکے نامناسب طرز عمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

پاکستانی سیاست

پاکستان میں آج جس جماعت کو دیکھ لیں اس کے پاس اپنے کارناموں کے نام پر عوام کو دکھانے کیلئے کچھ نہیں ہے، حکمران جماعت 3 سال سے ایوانِ اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود ماضی کی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراتی ہے تو سابقہ حکومتیں بھی  یہ ملبہ دوسروں پر ڈال دیتی ہیں تاہم پاکستان کی سیاست کا شرمناک پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم سربراہ مملکت ہونے کے باوجود قومی و بین الاقوامی فورمز پر مخالفین کا جس انداز میں تمسخر اڑاتے ہیں وہ کسی صورت قابل تقلید عمل نہیں  اور اپوزیشن رہنماء بھی سیاست میں گھریلو خواتین کے کردار پر بہتان لگاکر کوئی قابل تعریف کام نہیں کررہے۔

حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کو کسی بھی صورت اخلاقیات کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ آپ کے اس عمل سے معاشرے میں انتہائی نامناسب مثالیں پروان چڑھتی ہیں۔

Related Posts