اہم عہدوں پر تقرر: کیا ماضی سے سبق سیکھ لیا گیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جنرل (ر) کے ایم عارف جنرل ضیاء الحق کے قریبی ساتھی رہے ہیں، وہ کئی برس تک ان کے چیف آف سٹاف رہے، جبکہ بعد میں وائس چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے۔ جنرل عارف نے ضیا الحق کے ساتھ گزرے ایام پر ایک بہت بھرپور اور دلچسپ کتاب لکھی ورکنگ ودھ ضیا، جس کا اردو ترجمہ” ضیا الحق کے ہمراہ “کے نام سے شائع ہوا۔
اس کتاب میں جنرل کے ایم عارف نے بھٹو صاحب کی طرف سے جنرل ضیا الحق کو آرمی چیف بنانے کے پراسیس کے حوالے سے دلچسپ تذکرہ رقم کیا ہے۔ یاد رہے کہ بھٹو نے سینیارٹی لسٹ میں ٹاپ پر یا پہلے تین جرنیلوں کے بجائے جنرل ضیا الحق کو آرمی چیف بنایا جو کہ نمبر آٹھ تھے۔ بھٹو شائد یہ سمجھتے تھے کہ اپنی پسند کا کمزور شخص بنانے سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ میرے کنٹرول میں رہے گی۔ بعد میں جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور آج ہم آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
خیر جنرل خالد محمود عارف کی کتاب کی طرف لوٹتے ہیں۔ جنرل عارف لکھتے ہیں©:” انتیس جنوری 1976ءکوجنرل ٹکا خان فوج سے ریٹائر ہو گئے اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ضیا الحق کو آرمی چیف بنا دیا گیا۔ جنرل ضیا نے اس عہدے کے لئے بعض ایسے جرنیلوں کو کراس (سپر سیڈ )کیا جو ان سے سینئر تھے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھٹو نے ضیا میں آخر ایسا کیا دیکھا تھا ۔
” وسط 1975ہی سے مسٹر بھٹو نے جنرل ٹکا خان کے جانشین کی ٹوہ لگانی شروع کر دی۔ ایک مرحلے پر بھٹو نے ٹکا خان کو ایک سال کی توسیع دینے کا بھی سوچا لیکن بعد میں یہ خیال ڈراپ کر دیا کہ ایسا کرنا مستحسن اقدام نہ ہوگا۔ انہی دنوں میںچیف آف آرمی سٹاف ٹکا خان نے ایک دو گیریژنوں میں افسروں سے جو خطاب کیا، وہ بھی ان کے حق میں زیادہ امیدافزا ثابت نہ ہوا۔
”سینیارٹی لسٹ کچھ یوں تھی، جنرل شریف، جنرل اکبر خان، جنرل آفتاب، جنرل عظمت بخش اعوان، جنرل آغا علی ابراہیم، جنرل ملک عبدالمجید، جنرل غلام جیلانی خان اور جنرل ضیا الحق۔
”ان آٹھوں جرنیلوں کو بھٹو صاحب ذاتی طور پر جانتے تھے، مزید تسلی کے لئے انہوں نے مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں ، سپیشل برانچوں اور ایسے اداروں کے توسط سے ان افسروں کے تمام کوائف ، شہرت اور جملہ صفات کی چھان بین کرائی جو عوام اور مسلح افواج پر نظر رکھنے پر مامور تھے ۔ ان ناموں کا تذکرہ انہوں نے مختلف انٹیلی جنس سربراہوں سے ملاقاتوں میں بھی کیا۔ بھٹو نے اپنی کچن کیبنٹ سے بھی مشورہ کیا، جن میں مولانا کوثر نیازی، میجر جنرل امتیاز علی (ملٹری سیکرٹری)اور لیفٹننٹ کرنل مختار احمد بھی شامل تھے۔ مختار کا تعلق انٹیلی جنس بیورو سے تھا اور انہیں” بھٹو بوائے“بھی کہا جاتا تھا، ان کو اس بیورو میں اس لئے رکھا گیا کہ وہ نظر رکھ سکیں۔
”جب ٹکا خان کو اپنی ریٹائرمنٹ کا علم ہوا تو انہوںنے بھٹو کو تحریری طور پر اپنے جانشین کے لئے جنرل اکبر خان کی سفارش کی۔ جنرل اکبر ماضی میں ڈی جی آئی ایس آئی رہ چکے تھے۔ عام حالات میں کوئی بھی عہدہ دار اپنے جانشین کا نام لینے سے گریز ہی کرتا ہے ، تاآنکہ اسے ایسا کرنے کے لئے خصوصی طور پر کہا گیا۔ یہ تصور کرنا کہ مجاز اتھارٹی اس بن بلائی سفارش پر عمل کرے گی، سادہ لوحی کے زمرے میں آتی ہے۔ بھٹو نے جنرل ٹکا کی سفارش کو ٹھکرا کر گویا انہیں جتا دیا کہ اس قسم کے دخل درمعقولات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔
”اس طرح ایک خاص ترتیب سے اپنا ہوم ورک کرنے کے بعد بھٹو نے اکتوبر، نومبر 1975میںجنرل جیلانی(آئی ایس آئی) اور بریگیڈئیر مظفر ملک (نیشنل سکیورٹی کونسل )کو اکھٹے بلا کر ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں بھٹو نے تمام ممکنہ امیدواروں کے بارے میں جو ناشائستہ ریمارکس دئیے ، انہیں میں حذف کرنا ہی مناسب سمجھتا ہوں۔ بھٹو نے آخر میں یہ کہا کہ جنرل شریف فیلڈ مارشل (ایوب خان)کے آدمی ہیں۔ پھر کچھ تذبذب کے بعد بھٹو نے کہا کہ جب حکومت چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کی منظوری دے دے گی تب وہ شریف کو بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کرنے پر غور کریں گے۔
”اس کے بعد انہوں نے ٹکا خان کے جانشین پر بات کی اور رائے مانگی۔ جیلانی نے انہیں مشورہ دیا کہ جو ہر قابل کو تھوک کے حساب سے نظرانداز کرنا مناسب نہیں۔ مناسب یہ ہے کہ وہ اپنی پسند کا انتخاب چند سینئر ترین جنرل آفیسرز میں سے کر لیں کہ یہ تمام کے تمام نہایت آزمودہ اور با صلاحیت پیشہ ور سولجر ہیں ۔ جیلانی نے کہا کہ اگر ڈھیر سارے سینئر افسروں کو سپرسیڈ (کراس)کر دیا گیا اور انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تو ان عسکری عہدوں کے ڈھانچے کو دھچکا لگے گا۔
” مسٹر بھٹو اس منطق سے متاثر نہ ہوئے اور پوچھا ضیا کے بارے میں کیا خیال ہے ؟جنرل جیلانی نے جواب دیا:دوسروں کے مقابلے میں میں انہیں شخصی طور پر کم جانتا ہوں، اس لئے رائے دینا مناسب نہیں ہوگا، میں اور ضیا آخری بار 1950 میں اکھٹے تھے جب ہم دونوں کیپٹن کے طور پر کوہاٹ تعینات تھے ۔ اس کے بعد بھٹو نے مظفر ملک سے رائے مانگی۔ مظفر کا جواب تھا:© آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے ذہن میں مذہب کا ایک طاقتور جرثومہ موجود ہے۔ جب یہ کیڑا ان کے سر میں ایک بار داخل ہوجائے تو اس کو آسانی سے نکالا نہیں جا سکتا۔ اس پر بھٹو مسکرائے لیکن دل کی بات ظاہر نہیں کی۔
”معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو نے ضیا پر اس وقت سے اعتماد کرنا شروع کر دیا تھا جب 1973ءوالے سازش کیس کے دوران ان کا رابطہ ضیا سے ہوا۔ جیلانی کا خیال ہے کہ چونکہ ضیا نے اس کیس میں ملوث افسروں کو سزا دلوائی تھی جو بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے درپے تھے، اس لئے بھٹو ذاتی طور پر ضیا کے ممنون تھے۔ اس زمانے میں ضیا تقریباً روزانہ بھٹو کو براہ راست یا ملٹری سیکرٹری امتیاز کے ذریعے رپورٹ دیا کرتے تھے۔ اس ٹرائل کے فوری بعد ضیا نے آرمرڈ کور کے کرنل کمانڈنٹ کی حیثیت سے بھٹو سے درخواست کی کہ وہ کرنل ان چیف آف دی آرمرڈ کور کا اعزازی عہدہ قبول کر لیں۔
”ضیا جب ملتان میں کور کمانڈر تھے تو انہوں نے مسلسل مسٹر بھٹو سے رابطہ رکھا اور جب بھی بھٹو ملتان آتے، ضیا ان سے ضرور ملتے ۔ ایک بار بھٹو نے ملتان گیریژن کا دورہ کیا تو ملتان چھاونی میں موجود خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے معزز مہمان کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ ضیا کی اس ادا نے بھٹو کا دل موہ لیا تھا۔
” بھٹو نے آخر کار جنرل ٹکا خان کی جگہ ضیا کو بطور چیف آف دی آرمی سٹاف منتخب کر لیا اور جنرل شریف چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا دئیے گئے ۔ ان کی پروموشن کا اعلان کرنے سے کچھ پہلے بھٹو نے جنرل ضیا کو ملاقات کے لئے بھی بلایا تھا۔ “
( جنرل کے ایم عارف نے اپنی اسی کتاب میں بہت تفصیل سے ان واقعات کا ذکر بھی کیا جن کے باعث اسی بھٹو کے نیاز مند جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی 1977کو بھٹو کا تختہ الٹ دیا اور بھٹو کو گرفتار کر لیا۔ بعد میں اسی حکومت کی وجہ سے بھٹو صاحب کو ایک عدالتی مقدمے میں پھانسی کی سزاسنائی گئی ۔ یہ مگر ہمارا آج کا موضوع نہیں۔)
کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔
پاکستان کی طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں آرمی چیف کا عہد ہ بہت طاقتور سمجھا جاتا ہے، مگر شائد ہی کسی ملک میں اس تقرر پر اتنا شور مچایا جاتا ہو، اس قدر سازشی تھیوریز، اندازے، مفروضے اور باتیںبنائی جاتی ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے سویلین حکمرانوں نے اس معاملے کو بہت کم ہی سلیقے سے ہینڈل کیا ہے۔
بہترین طریقہ یہی ہے کہ یہ تقرر کرتے ہوئے سیاسی مفادات یا ذاتی تعلق کے بجائے صرف اور صرف پروفیشنل میرٹ اور ملک وقوم کا مفاد سامنے رکھنا چاہیے ۔ میرٹ پر بہترین تقرر سے نہ صرف مسئلہ فوری حل ہوجاتا ہے بلکہ ہر طرف سے پزیرائی بھی ملتی ہے۔
یہ بھی اتفاق ہے کہ پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ میاں نواز شریف کو یہ تقرر کرنے کا موقعہ ملا، سب سے زیادہ تنازعات بھی انہی کے ادوار میں پیدا ہوئے۔بدقسمتی سے میاں نواز شریف کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اکثر مس ہینڈلنگ کی اور اپنی خواہشات اور اغراض کو سرفہرست رکھا۔
اس بار میاں نواز شریف ملک سے باہر ہیں، مگر ان کی حکومت پر گرفت مضبوط ہے، وزیراعظم ان کے چھوٹے بھائی ہیں، جن میں یہ جرات اور ہمت نہیں کہ وہ خود کوئی فیصلہ کر سکیں یا اپنی دانش بروئے کار لاتے ہوئے بڑے بھائی کو قائل کر سکیں۔
تقرر کا استحقاق میاں شہباز شریف وزیراعظم پاکستان کا ہے، امکان مگر یہی ہے کہ جو فیصلہ میاں نواز شریف کریں گے،اسی پر عمل درآمد ہوگا، چاہے بحران پیدا ہو، سسٹم کو خطرہ لاحق ہوجائے یا کچھ بھی نتیجہ نکلے۔
اس وقت صرف مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں بلکہ چودہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم برسراقتدار ہے، پیپلزپارٹی کا حکومت میں بہت اہم حصہ ہے، اس کے بغیر وفاقی حکومت کسی صورت نہیں چل سکتی۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری پر کئی حوالوں سے تنقید کی جا سکتی ہے، مگر وہ بہرحال ایک تجربہ کار اور گھاگ سیاستدان ہیں، ہر قسم کی نزاکتوں، پیچیدگیوں اور مسائل سے اچھی طرح واقف ۔
امید کرنی چاہیے کہ حکمران اتحاد اپنی اجتماعی سیاسی دانش بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسا اچھا تقرر کرے گا، جس سے معاملات اچھی طرح سلجھ جائیں اور کسی بھی قسم کا بحران پیدا نہ ہو۔ توقع یہی کرنی چاہیے کہ آصف زرداری جو مشاورت کے آخری مراحل میں شامل ہیں، وہ کوئی اچھا حل نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ امید تو یہ بھی کرنی چاہیے کہ پروفیشنل میرٹ پر ایسا تقر رہو جس پر اپوزیشن خاص طور سے عمران خان کو تنقید کا موقعہ بھی نہ ملے۔
دعا ہے کہ ہمارے حکمران تدبر، عاقبت اندیشی اور سمجھداری سے کام لیں اور معاشی بحرانوں سے دوچار ملک کو کسی نئے مسئلے میں نہ الجھائیں۔ وہی فیصلہ ہو جو پاکستان کے لئے بہترین ثابت ہو، آمین۔

Related Posts