ڈاکٹر عبدالسلام کے اہلِ خانہ سے معذرت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

میں ایک چھوٹی سی بچی تھی جب آپ کے والد آج ہی کے روز 24سال قبل وفات پا گئے اور زندگی میں آگے بڑھتے ہوئے میں نے ان کا نام کبھی نہیں سنا۔

ایک پاکستانی طفل کی حیثیت سے مجھے یہ علم تھا کہ ہماری قوم کے ہیروز کون ہیں، اسکول اور معاشرے نے یہ بات یقینی بنائی کہ مجھے معلوم ہو کہ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا اور قائدِ اعظم کی جدوجہد نے اسے ایک نئے ملک کی صورت میں تعبیر دی۔ راشد منہاس نے اپنی جان دے کر وطن کا تحفظ کیا، عبدالستار ایدھی نے ملک کے غریب شہریوں کی مدد کی، پھر بھی ایک ماہرِ طبیعیات ڈاکٹر عبدالسلام کا نام قومی ہیروز کی فہرست میں شامل نہ ہوسکا۔

اسکول میں سائنس پڑھتے ہوئے مجھے علم ہوا کہ آپ کے والد کے کام پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی۔ ہمیں یہ تو پڑھایا گیا کہ تھامس ایڈیسن نے بجلی کا بلب ایجاد کیا اور نیوٹن نے سیب کے گرنے سے حرکت کے قوانین اخذ کیے۔ ہم نے آئن اسٹائن کی توانائی، مادے اورروشنی کے تعلق پر مبنی مشہور مساوات تو پڑھی، حالانکہ اس کی وجوہات آج تک نہیں بتائی گئیں، لیکن کسی کتاب میں ڈاکٹر عبدالسلام کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر کوئی نوبل انعام کی بات کرے تو کبھی کبھار نام سامنے آجاتا ہے لیکن مزید کوئی وضاحت پیش کیے بغیر ان کا نام ایک بار پھر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

آج تک آپ کے والد کا نام کسی محفل میں لینا ملے جلے ردِ عمل کا باعث بنتا ہے جس میں تکلیف دہ تاثرات سے لے کر نفرت تک کا سامنا ہوتا ہے، حالانکہ اس سے فخر کا احساس ہونا چاہئے۔ پنجاب یونیورسٹی میں میٹرک ریکارڈ کردہ اب تک کے اعلیٰ ترین نمبرز کے حصول کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام کا سینٹ جان کالج، کیمبرج میں ریاضی اور طبیعیات میں بی اے کیلئے اسکالر شپ پر پہنچنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔

وہ دور جس میں احساسِ کمتری ہی ہمارا اثاثہ بن چکا تھا، ڈاکٹر عبدالسلام نے فزکس کے شعبے میں زبردست پری ڈاکٹوریل خدمات سرانجام دے کر اسمتھ کا انعام جیتا جو ملک کیلئے ایک ایسا لمحہ تھا جس میں دنیا نے یہ سیکھا کہ پاکستان سے ایک براؤن جلد والے شخص کو کیسے دیکھا جائے گا اور کیسے دیکھنا چاہئے؟ اس سے بڑی جیت تب ملی جب ڈاکٹر عبدالسلام نے 1979ء میں فزکس میں الیکٹرو ویک یونیفیکیشن تھیوری میں خدمات سرانجام دینے پر شیلڈو گلاشو اور اسٹیسن وین برگ کے ساتھ مشترکہ نوبل انعام جیتا۔ اس لمحے پاکستان ایک ایسا ملک بنا جسے پوری دنیا ایک شاندار ذہن سے منسلک ملک سمجھنے لگی تھی۔

قوم نے جب آپ کے والد کی طرف سے پہلا نوبل انعام حاصل کیا تھا، اس بات کو آج 4 دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن کوئی گلی، کوئی عمارت اور کوئی قومی دن ڈاکٹر عبدالسلام کے کارناموں کی یادگار کے طور پر مختص نہ کیا جاسکا۔

سن 2016ء میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر قائدِ اعظم یونیورسٹی میں قومی سنٹر برائے طبیعیات کا نام تبدیل کرنے کی منظوری دی اور انہوں نے پروفیسر عبدالسلام فیلو شپ پروگرام کے تحت پاکستان سے پی ایچ ڈی کرنے والے 5 سالانہ طلباء کیلئے وظیفہ بھی شروع کیا، تاہم ، یہ چھوٹی سی کاوش بھی منفی ردِ عمل کا شکار ہو گئی۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبے کا نام پروفیسر عبدالسلام کے نام پر رکھنے کی مخالفت کی اور خود نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر نے بھی اس اقدام کو قومی اسمبلی کے فلور سے خطرناک قرار دیا۔ موت کے بعد بھی ڈاکٹر عبدالسلام نے وہی جدوجہد کی جو وہ زندگی کے دوران کر رہے تھے۔

ماہرِ طبیعیات ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے انہیں اسی یونیورسٹی میں لیکچر دینے کی دعوت دی اور پھر احمدی عقیدے کے باعث داخلے سے انکار کردیا گیا۔ جماعتِ اسلامی کے لڑکوں نے انہیں دھمکی دی کہ ہم آپ کی ٹانگیں توڑ دیں گے اور ڈاکٹر عبدالسلام کی کامیابیاں مذہب کے نام پر نظر انداز کردی گئیں۔

پاکستان میں غیر مسلموں کو بھی یکساں حقوق حاصل ہوں گے، یہ ضمانت دیتے ہوئے ایک بار قائدِ اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا رنگ و نسل سے ہو، اسے ریاست کے کاموں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔

سن 1974ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا اور آپ کے والد اپنے ہی ملک میں اقلیت کا حصہ قرار پائے اور پھر ڈاکٹر عبدالسلام کے کارناموں پر ان کے مذہب اور مسلک کے نام پر ایک گہرا نقاب ڈال دیا گیا۔المناک انداز میں بہت جلد ان کا نوبل انعام، عالمی سطح کی تحقیق، علم ، صلاحیت اور وطن کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے خدمات سمیت ہر بات نظر انداز کرتے ہوئے اسے قومی کارناموں کی فہرست سے الگ کردیا گیا۔ 

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک عام شہری کی حیثیت سے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ آج تک کیمبرج میں تو ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر موجود ہے لیکن ملکی تاریخ کے قومی ہیروز اور کارناموں کے اعتراف میں ان کا کوئی حصہ نہیں سمجھا گیا اور خدمات کے اعتراف سے انکار پر ہماری خاموشی ہمیشہ شرمناک رہے گی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے کارناموں پر پوری قوم کو فخر کرنا چاہئے، اس بات سے قطعِ نظر کہ وہ مسلمان تھے، ہندو، عیسائی یا پھر ملحد، ان کے مذہب سے قوم کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ قائدِ اعظم نے فرمایا تھا۔ 

Related Posts