مالی مشکلات سے چھٹکارے کا مجرب عمل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سن 2018ء کے انتخابی نتائج سے بننے والی “ریاست پودینہ” اس وقت بھی اس صورتحال دوچار ہے کہ غریب آدمی پودینے کی چٹنی سے روٹی کھانے پر مجبور ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ شامت ہم رائٹرز کی آگئی ہے کہ ہم سے متعلق لوگوں کو یہ وہم لاحق رہتا ہے کہ ہمارے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے۔ ہمیں حالیہ عرصے میں اس طرح کے کئی پیغامات ملے ہیں جن میں ہم سے مشورہ مانگا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں اپنے مالی حالات کیسے بہتر کریں ؟ مشورہ مانگنے والے چونکہ “دین دار” ہیں سو پیش خدمت ہے ایک مجرب ٹوٹکا۔

ْمالی مشکلات دور کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ پیری مریدی کا پروجیکٹ لانچ کر دیجئے۔ طریقہ ہم بتا دیتے ہیں۔ دو چار ایسے دوست ڈھونڈیئے جو آپ کی طرح ہی باشرع ہوں، اور آپ ہی کی طرح مالی مشکلات سے دوچار ہوں۔ اور رہتے دوسرے شہروں میں ہوں۔ وہ بس اپنے شہروں میں اپنے دوستوں کے سامنے یہ جملہ بکثرت دہرانا شروع کردیں کہ ”ہمارے حضرت فرماتے ہیں۔۔۔۔“ مگر اس سے قبل آپ نے یہ کرنا ہے کہ قمیض کی جگہ چار چھ سفید کرتے سلوا لیجئے۔ یہ کرتے کھلے اتنے ہونے چاہئیں کہ آپ کے وہ دوسرے شہر میں بیٹھے دو چار مرید بھی ان میں سما سکیں۔ جبکہ کرتوں کی طوالت اتنی کہ گھٹنوں اور ٹخنوں کے عین سینٹر تک ہو۔ آستیں ایسے کہ صرف انگلیاں باہر ہوں باقی ہاتھ ان میں چھپا ہوا۔ زیرو نمبر والی مشین سے ٹنڈ کروانا معمول بنا لیجئے، اور مونچھیں کسی بھی صورت نہ رکھئے۔ سر پر عمامہ نہیں ہونا چاہئے، وہ تو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ آپ نے دین پر تھوڑی چلنا، آپ نے تو پیری مریدی کا بزنس کرنا ہے۔ سو آپ نے آج کل کے پیروں والی ہاتھ سے بنی ٹوپی اوڑھنی ہے۔

ایک اہم کام یہ کر لیجئے کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے درجن بھر ملفوظات اور حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے مکتوبات کے کچھ حصے اچھی طرح رٹ لیجئے۔ یہ رٹنا بہت ضروری ہے کیونکہ پیری مریدی میں تب تک برکت نہیں پڑتی جب تک یہ دو چیزیں قرآن و حدیث سے زیادہ بیان نہ ہونے لگیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے نام آپ کی زبان پر نہ بھی آئیں تو کوئی ٹینشن نہیں۔ لیکن جنید بغدادی، حسن بصری، شیخِ جیلان، رابعہ بصری اور ابن عربی رحمھم اللہ کے ذکر سے آپ کی زبان تر رہنی چاہئے۔

پیر کے لئے کتابوں کے حوالے ضروری تو نہیں ہوتے مگر آپ اگر ابن عربی کی فصوص الحکم اور غزالی کی احیاء العلوم کا ذکر وقتاً فوقتاً کرنے کا پلان بنا لیں تو باعثِ برکت ہوگا۔ آپ کی ڈیکوریشن تو پوری ہوگئی۔ اب آجایئے خانقاہ کی جانب۔ ابھی آپ غریب ہیں سو گھر کی بیٹھک کو خانقاہ کی شکل دینی ہوگی۔ کارپٹ تو وہاں موجود ہوگا۔ بس ایک اس سائز کا چھوٹا قالین خرید لیجئے جو جائے نماز سے دگنا ہو۔ گھر میں کوئی غیر مستعمل رضائیاں یا بستر ہوں تو ان سے روئی نکلوا کر ایک اتنا بڑا تکیہ بنوا لیجئے جس میں کم از کم بیس کلو روئی لگ جائے۔ ایک سٹیل کا چمکدار اُگالدان بھی خرید لیجئے۔ اور کسی اچھے سے خطاط سے یہ عبارت لکھوا کر فریم کروا لیجئے ”سچے مرید کا ہر لمحہ شیخ کی یاد سے معطر رہتا ہے“۔ لیجئے صاحب ! آپ بھی تیار ہیں، اور خانقاہ بھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے دوسرے شہروں میں بیٹھے وہ چار ”خلفاء“ ماحول بھی تیار کر چکے ہیں جنہیں آپ نے سکیم میں شامل کیا تھا۔ انہوں نے جن جن کے سامنے یہ کہا تھا کہ ”ہمارے حضرت فرماتے ہیں۔۔۔۔“ ان میں سے بہت سے آپ کی زیارت کو مچل رہے ہیں۔ اب آپ نے بس ان کے شہر پہنچنا ہے۔ وہ شائقین خود ہی کھچے چلے آئیں گے۔

آپ نے ان کے سامنے زیادہ باتیں نہیں کرنیں۔ ہر وقت سر جھکائے ہونٹ دھیرے دھیرے متحرک رکھنے ہیں۔ وہ کوئی سوال پوچھیں تو جواب بے شک ناقابل فہم ہو مگر دو جملوں سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ ارے ہاں! ایک اہم بات بتانی تو بھول ہی گئے۔ جب وہ ملاقات کے لئے آئیں تو آپ نے مسنون مصافحہ نہیں کرنا۔ دائیں ہاتھ کی کہنی تکئے پر ٹکائے رکھ کر بس ہاتھ ذرا سا اوپر کو کرنا ہے تاکہ وہ جھک کر مصافحے کی سعادت حاصل کر سکیں۔ اور اس سعادت میں بھی آپ کی انگلیوں کے صرف پہلے پورے ہی انہیں لمس عطاء کریں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو تکبر ہے۔ تو بھئی تکبر یہ اسلام میں ہے۔ پیری مریدی میں اسے ”استغناء“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو مخاطب کرکے اس کے عیوب کی نشاندہی اسلام میں ممنوع ہے لیکن پیری مریدی میں اسے ”تزکیہ نفس“ کہتے ہیں۔ سو آپ نے مریدوں کے ساتھ یہ معاملہ بھی کرنا ہے۔ مثلاً ان میں سے کسی سے کہہ دیجئے ”تمہارے منہ سے حرام کی بدبو آرہی ہے“۔ گھبرائیں مت، وہ بدکے گا بالکل نہیں بلکہ یکدم آپ کے پیر پکڑ کر ”تزکیے“  کی درخواست کرے گا۔ جبکہ دیگر پر آپ کے صاحبِ کشف ہونے کا بھرم بھی قائم ہوجائے گا۔ اب آپ نے یہ کرنا ہے کہ ان مریدوں کو ہفتے بھر کے لئے اپنے شہر بلا لیجئے۔

یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھ لیجئے کہ آپ کا شہر ہر حال میں کراچی ہی ہونا چاہئے۔ ورنہ دکان یعنی خانقاہ اچھی نہ جم سکے گی۔ اور خلفاء سے کہہ دیجئے کہ جب وہ انہیں کراچی لائیں تو اس سے قبل انہیں آپ جیسی وضع قطع بھی اختیار کروا دیں۔ ویسے ہی کھلے اور طویل کرتے، ویسی ہی ٹوپیاں، ویسی ہی گھسی ہوئی مونچھیں۔ جب یہ کراچی آجائیں تو آپ نے دو دن ڈیفنس کی دو مختلف مساجد میں مغرب کی نماز پڑھنی ہے۔ وہ بھی یوں جیسے گزرتے گزرتے نماز کے لئے رُکے ہوں۔ نماز ہر حال میں مغرب کی ہونی چاہئے۔ کیونکہ سیٹھ بڑی تعداد میں اسی نماز میں ہوتے ہیں۔ مریدوں کے جھرمٹ میں آپ کا مسجد میں داخل ہونا اور نکلنا ہی سارا کام کردے گا۔ کئی سیٹھ یہ دیکھ کر چونک اٹھیں گے کہ آج تو کوئی اللہ والا آیا ہے۔ اس سے ان کے ذہن میں سوال پیدا ہوجائے گا کہ آخر یہ حضرت ہیں کون؟ اس کا جواب پانے کے لئے ان میں سے دوچار آپ کے مریدوں کے قریب آجائیں گے۔ اور ان میں سے کسی ایک کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئےآپ کا تعارف مانگیں گے۔ تعارف ملنے پر وہ گھر چل کر خدمت کا موقع دینے کی منت سماجت بھی کریں گے۔ مگر آپ نے ان کے ساتھ جانا نہیں ہے۔ آپ نے استغناء دکھاتے ہوئے کہنا ہے ”ابھی ہمیں کسی کے گھر داخل ہونے کا اذن نہیں“۔ یوں وہ آپ کا ایڈریس معلوم کرکے خود پہنچیں گے۔ صرف پہنچیں گے ہی نہیں بلکہ گھر، اور کارخانوں تک لے کر جائیں گے تاکہ آپ کے مبارک قدموں سے ان کے کاروبار میں برکت ہوسکے۔ جب یہ ہوجائے تو بس سمجھ لیجئے کہ تصوف کی برکات برسنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ بہت جلد آپ کے سارے دکھ درد ختم ہوجائیں گے۔ کراچی کے سیٹھوں کو یہ پٹی کسی نے پہلے ہی پڑھا رکھی ہے کہ اگر کاربار حرام کا بھی ہو تو کسی اللہ والے کیلئے اس میں سے موٹا سا حصہ رکھنے سے سارا مال پاک ہوجاتا ہے، مگر مشن ابھی پورا نہیں ہوا۔ پیری مریدی میں بھی پروپیگنڈا لازمی ضرورت ہے۔ سو آپ نے دو دن ظہر کی نماز کسی بڑے مدرسے میں پڑھنی ہے۔ ایسا مدرسہ جو سڑک کنارے واقع ہو، مثلا بنوری ٹاؤن یا دارالعلوم کراچی وغیرہ۔ وہاں بھی مریدوں کا جھرمٹ ہونا چاہئے۔ وہاں بھی اجنبیوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ یہ حضرت کون ہیں؟ فرق بس یہ ہوگا کہ یہ سیٹھ نہیں بلکہ مدرسے کے طلبہ ہوں گے۔ وہ بھی مریدوں سے آپ کا تعارف حاصل کرلیں گے۔ ان کی چونکہ کلاسز شروع ہونے والی ہوں گی لہٰذا وہ آپ کو کمرے میں چلنے کی دعوت نہیں دیں گے۔ انتظامیہ میں سے کوئی دفتر تشریف لانے کا کہے تو انکار کردیجئے، ورنہ پول کھل سکتا ہے۔ جانتے ہیں اس وزٹ کا کیا فائدہ ہوگا؟ یہ فائدہ ہوگا کہ جن طلبہ نے آپ کو دیکھا وہ باقی سب کو بتائیں گے ”پتہ ہے، آج پیر گفتارالدین شاہ صاحب تشریف لائے تھے!  الحمدللہ احقر کو تو مصافحے کی سعادت بھی نصیب ہوئی“۔ اور اسی دن عصر میں چھٹی ہوتے ہی فیس بک پر پوسٹیں آجائیں گی جن میں بتایا جائے گا کہ آج ان کے مدرسے میں آپ کی تشریف آوری ہوئی تھی۔

آپ کے نورانی چہرے کے خدوخال اس تفصیل سے بیان ہوں گے کہ خود آپ بھی اس سے ناواقف نکلیں گے۔ لیجئے صاحب! جم گیا آپ کا بزنس ۔ اب آپ نے بس دو کام کرنے ہیں۔ ایک یہ کہ غریب مریدوں سے بس اپنی مالش کروانی ہے، پیر دبوانے ہیں، اور ”تخلیہ“ صرف سیٹھ مریدوں کے لئے رکھنا ہے۔ انہیں وقتاً فوقتاً یہ بشارت ضرور دینی ہے کہ اللہ ان سے بہت راضی ہے۔ دوسرا کام یہ کرنا ہے اب اپنے شہر میں بھی دو تین خلفاء کا انتظام کر لیجئے، جن کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہو کہ آپ کی کرامات پھیلائیں۔ کرامات یونیک سی ہونی چاہئیں۔ مثلاً پرانے صوفیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ عشاء کے وضوء سے فجر پڑھا کرتے تھے۔ ان کے بچے کیسے پیدا ہوتے تھے؟ اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں بس حضرت عشاء کے وضوء سے فجر پڑھا کرتے تھے پر سب کا فوکس ہے۔ آپ کے خلفاء یہ مشہور کردیں کہ آپ فجر کے وضوء سے عشاء پڑھتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو جواب بہت ہی آسان کہ بھئی، یہی تو کرامت ہے کہ وضوء فجر میں کرتے ہیں اور نماز اس سے عشاء کی ادا کرتے ہیں۔ پیری مریدی کے اس ماسٹر پلان سے اگر آپ نے یہ تاثر حاصل کیا ہے کہ ہم تصوف کے خلاف ہیں تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ ہم نے بس عصرِ حاضر کے ایک فراڈ کی جانب آپ کو متوجہ کیا ہے۔ آنکھیں کھولئے، آپ کو بھی سمجھ آجائے گا۔ حقیقی تقویٰ کا اصول سمجھ لیجئے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے فرائض کو مجمع کی صورت رکھا ہے۔ مثلاً فرض نمازیں، حج، رمضان کے روزے وغیرہ۔ لیکن نفلی عبادات میں ”رازداری“ رکھی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ عشق الہی کی دنیا ہے اور عشق میں رازداری شرط اوّلیں ہے۔ مثلا سنتیں گھر پر ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔ تہجد، نوافل اور تلاوت بھی گھر پر۔ اسی طرح زکوٰۃ سب کے سامنے دے سکتے ہیں لیکن صدقہ جو نفلی عبادت ہے اس کے معاملے میں حکم ہے کہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ سو جو پیر اور اس کے مرید وضع قطع تک ایسی اختیار کرتے ہیں جن سے پبلک کے سامنے وہ ممتاز نظر آئیں کہ دیکھو کوئی حضرت گزر رہے ہیں، گھر یا خانقاہ سے چمچوں کی جھرمٹ کے بغیر نکلتے بھی نہ ہوں۔ ترجیح تزکیہ نفس نہیں بلکہ تزکیہ تجوری ہو۔ حضرت ڈیفنس میں تو آئے روز نظر آتے ہوں مگر اورنگی ٹاؤن نہ جانے کی جیسے قسم اٹھا رکھی ہو۔ اس ڈھکوسلے کا تصوف سے کیا لینا دینا؟ اس پیر کا تو پورا نظام ہی نمودونمائش اور لالچ پر کھڑا ہے۔ تقویٰ والی رازداری ڈھونڈنے سے بھی اس کے ہاں ملتی ہے؟ مکرر عرض کر رہے ہیں کہ تقویٰ کی شرطِ اوّلین ہی رازداری ہے۔ سو سچے اولیاء اللہ خود کو مٹا کر رکھتے ہیں!

Related Posts