فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی حقیقی ترجمانی۔۔ کیا ہم نئے چیلنجز اور تدارک کیلئے تیار ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسرائیل نے غزہ میں انسانیت سوز مظالم کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، غزہ میں 10ہزار سے زیادہ زندگیا ں ختم ہوچکی ہیں، جابجا ملبے تلے پڑی بے گور و کفن لاشیں اقوام عالم کی بے حسی کا بین ثبوت ہیں تاہم ایسے میں نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے تاشقند میں مسلم امہ کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک مفصل اور مدلل انداز میں انسانی حقوق کا مقدمہ پیش کیا ہے۔

اس وقت اوآئی سی اور ای سی او ممالک کا موازنہ کیا جائے تو پہلی بار کسی او آئی سی کے رکن ملک کے سربراہ نے اتنا موثر پیغام دیا ہے۔وزیراعظم کے بیان کا جائزہ لیں تو دنیا کے بدلتے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ انوار الحق کاکڑ نے ای سی او کے 16 ویں اجلاس میں اسرائیل کے احتساب کا معاملہ اٹھایا تاہم امریکا اور دیگر مغربی ممالک ایسا کسی صورت ہونے نہیں دینگے لیکن وزیراعظم پاکستان نے ناصرف 57اسلامی ممالک بلکہ پوری دنیا میں درد دل رکھنے والے لوگوں کی آواز میں پاکستان کے 22کروڑ عوام کی جاندار آواز شامل کی ہے۔

غزہ میں جاری انسانیت سوز مظالم و بربریت کیخلاف پوری دنیا کے بیشتر افراد اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے میں مصروف اور سراپا احتجاج ہیں، غزہ میں  زمین، فضا اور سمندر سے 30ہزاد ٹن سے زیادہ بارود و بم نہتے فلسطینیوں پر برسائے جاچکے ہیں جس نے پوری دنیا کے باضمیر لوگوں کے ضمیر کو بری طرح جھنجھوڑ دیا ہے۔

انوار الحق کاکڑ نے ای سی او کے پلیٹ فارم سے اسرائیل کے ظلم و بربریت کی واشگاف الفاظ میں مذمت کی اور معاملہ احسن انداز میں اجاگر کیا تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکا اور دیگر ممالک سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مذمت کرنے کوبھی تیار نہیں ہیں بلکہ ویٹو پاور کا استعمال کرکے غزہ میں جاری وحشیانہ بمباری کو دوام بخش رہے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے گوکہ نہتے اور مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کا معاملہ اٹھاکر امت مسلمہ اور دنیا بھر کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیا ہے لیکن عالمی سطح پر اس کے کچھ مضمرات بھی ہوسکتے ہیں ۔ 12 نومبر کو او آئی سی کا اجلاس ہونے جارہا ہے اور جدہ میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں بھی انوار الحق ضرور شرکت کرینگے اور وہاں بھی اپنا موقف مضبوط انداز میں پیش کرینگے۔

حالات کے پیش امریکا اور مغربی ممالک کی طرف سے پاکستان سے بدگمانی ابھرنے کا احتمال رہے گا لیکن اگر دفتر خارجہ کوشش کرے تو اپنی سفارتی کاوشوں سے امریکا اور مغرب کو باور کروانا عین ممکن ہے کیونکہ عالمی قانون(سیکورٹی کونسل کی قرار داد242نمبر) کے مطابق اسرائیل مقبوضہ زمین سے قبضہ چھوڑنے کا پابند ہے اور بیشتر عالمی قوانین کے مطابق بچوں، خواتین اور مظلوم فلسطینیوں پر بم نہیں برسا سکتاکیونکہ ایسا کرنے سے وہ جنگی جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی بار بار اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں، اقوام متحدہ کے 99ارکان اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی نذر ہوچکے ہیں ایسے میں اقوام متحدہ کا کردار اور ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ پوری امت مسلمہ کے جذبات کی درست عکاسی کی ہے تاہم من حیث القوم ہمیں اسرائیل کی سخت مخالفت کی وجہ سے پیش آنے والے مشکل حالات کیلئے منصوبہ بندی بھی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بیشتر مضبوط طاقتور ممالک کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کے باعث پاکستان سے رویہ سخت کرسکتے ہیں جس سے ہمیں آنے والے دنوں میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسلامو فوبیا کئی برسوں سے پاکستان کی سفارت کاری میں اہم نکتہ رہا ہے، ای سی او اقوام متحدہ کے چیپٹر 8کے تحت وجود میں آنے والا ایک اہم پلیٹ فارم ہے جہاں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دنیا کو آگاہ کرکے ایک بار پھر اس معاملے میں نئی جان ڈال دی ہے۔ اسلامو فوبیا کا تدارک دنیا کا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور انوار الحق کاکڑ نے اس دیرینہ مسئلے کی طرف اقوام عالم کی توجہ مبذول کرواکر ایک مستحسن اقدام اٹھایا ہے۔

ای سی او اور ایس سی او علاقائی ترقی و تجارت کیلئے مضبوط اور قابل قدر پلیٹ فارمز ہیں، ہمیں شنگھائی تعاون تنظیم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ دنیا کی دو بڑی طاقتیں چین اور روس اس کا حصہ ہیں اور کرغزستان، ازبکستان، تاجکستان، کازاخستان اور پاکستان اس تنظیم میں شامل ہیں جبکہ ترکی، افغانستان، ترکمانستان، آزربائی جان، ایران دیگر ای سی او کے ممبران ہیں۔

ای سی او اور ایس سی او کے کچھ مقاصد مشترکہ ہیں جس کی وجہ سے علاقائی اعتبار اور دنیا کے بدلتے منظر نامے میں ان دونوں پلیٹ فارمز کی اہمیت اور افادیت مزید بڑھ رہی ہے اور ریلوے لائن منصوبے کے علاوہ دیگرتجارتی معاملات کو بھی دوام ملے گا۔وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ای سی او کے پلیٹ فارم پر مسلم امہ کو درپیش کئی مسائل کو ایسے پیش کیا جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا جائے۔

ای سی او کے 16 ویں اجلاس میں پاکستان کی شمولیت سے خطے میں تجارتی سرگرمیوں کے فروغ میں مدد ملے گی۔راقم الحروف کی تجویز اور گزارش ہے کہ پاکستان کے اکابرین مسائل کی چکی میں پسنے والے عوام کی زندگیوں کو بدلنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کی طرف قدم بڑھائیں ، خطے میں پیدا ہونے والےمثبت مواقع سے فائدہ اٹھائیںاور تجارت کی طرف پیش قدمی کریں اور معیشت کی بہتری کیلئے حکمت عملی بنائیں۔

بلاوجہ مخالفت اور سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر ایس سی او اور ای سی او کو اپنے معاشی حالات کی بہتری اور عوام کی حالات زار ٹھیک کرنے کیلئے استعمال کریں اور اپنے حالات کو درست کریں۔

ہماری قوم میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے، ہمارے نوجوان بہت مضبوط اور پرعزم ہیں انکو استعمال کیا جائے ورنہ یہ نوجوان بدظن ہوجائینگے۔پاکستان ایک مضبوط اور بااثر ملک ہے لیکن ہم اپنے پیروں پر کلہاڑیاں مارتے رہیں تاہم ابھی یہ وقت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی کرن دکھاسکتے ہیں۔

میں اپنے نوجوانوں کو ایک بار پھر یہ پیغام دینا چاہوں گا :
میرے دیس کے جوانو ہمت نہ ہارنا
قدرت کا امتحان ہے ہمت نہ ہارنا

نئی نسلوں کے چراغو امید رکھو باقی
یہ ملک ہے تمہارا ہمت نہ ہارنا

خوشحال تم رہو گے سرشار تم رہو گے
دشوار اس گھڑی میں ہمت نہ ہارنا،

میرے دیس کے جوانوں ہمت نہ ہارنا

Related Posts