غزہ جنگ میں 35ہزار شہادتیں، مسلمان زبانی جمع خرچ سے آگے کیوں نہیں بڑھے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

غزہ جنگ
(فوٹو: آن لائن)

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

غزہ جنگ میں شہادتوں کی تعداد 35 ہزار کے لگ بھگ ہوچکی ہے جس میں ہزاروں خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ مسلمان ممالک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی خونریزی اور قتل و غارت کا سلسلہ کب رکے گا؟

ایک عام مسلمان یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ غزہ جنگ میں ہزاروں بچوں اور خواتین سمیت شہریوں کو قتل اور زندہ درگور کرنے کے علاوہ جسمانی تشدد اور سنگین جنگی جرائم کے باوجود مسلمان ممالک زبانی جمع خرچ سے آگے کیوں نہ بڑھ سکے، آئیے جواب تلاش کرتے ہیں۔

مسلم ممالک کا تازہ ترین اجلاس

حال ہی میں سعودی عرب کی زیر صدارت ہونے والے عرب اور دیگر مسلمان ممالک کی وزارتی کمیٹی کے اجلاس میں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے جواب میں اسرائیل پر مؤثر پابندیاں عائد کرے۔

اجلاس میں سعودی عرب کے علاوہ مصر، اردن، ترکی، قطر، فلسطینی اتھارٹی اور اسلامی تعاون تنظیم کے حکام شریک ہوئے اور عالمی برادری سے اسرائیل پر مؤثر پابندیاں عائد کرنے اور اسے ہتھیاروں کی برآمدات روکنے جیسے اہم مطالبات بھی کرڈالے۔

اس حوالے سے سعودی وزارتِ خارجہ کا فرمانا ہے کہ مسلم ممالک نے اسرائیل کے جنگی جرائم پر جواب طلبی کیلئے عالمی قانونی ذرائع فعال کرنے، آبادکاروں کی دہشت گردی روکنے اور اس کے خلاف مضبوط مؤقف اختیار کرنے پر زور بھی دیا۔

جنگی جرائم کی پشت پناہی 

دیکھا جائے تو اسرائیل کے جنگی جرائم کی پشت پناہی نہیں بلکہ کھلم کھلا حمایت کی جارہی ہے اور امریکا کا کہنا ہے کہ “وہ اسرائیل کی حمایت، ہتھیاروں کی فراہمی اور اربوں ڈالرز کی مالی امداد بھی جاری رکھے گا” جس سے قتل و غارت مزید بڑھ سکتی ہے۔

پشت پناہی کی بات کی جائے تو اسرائیل کے پیچھے صرف امریکا نہیں بلکہ وہ یورپی ممالک بھی ہیں جو امریکا کے اتحادی کہلاتے ہیں جس کے نتیجے میں غزہ میں فلسطینیوں کا قتلِ عام جاری ہے اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں، کتنے ہی مردوزن اور بچوں کی لاشیں ملبے تلے دب گئیں۔

شہادتوں کے اعدادوشمار

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں 7اکتوبر سے جاری قتل و غارت کے نتیجے میں 34 ہزار 979 فلسطینی شہید ہوئے جبکہ اسرائیل میں ہلاک افراد کی تعداد 1 ہزار 139ہوگئی ہے۔ 29 اپریل تک شہید فلسطینیوں کی تعداد 34 ہزار 488 تھی۔

گزشتہ روز تک فلسطین میں قتل کیے گئے بچوں کی تعداد 14 ہزار 500 سے زائد جبکہ خواتین کی 8 ہزار 400 ہے جبکہ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں زخمی افراد کی تعداد 77 ہزار 643 اور لاپتہ افراد کی 8 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔

مسلم ضمیر خاموش کیوں؟

دنیا کا کوئی بھی ملک بیان بازی کی حدتک تو مسلمانوں کا ساتھ دیتا ہے تاہم جب حقیقی اور عملی اقدامات اٹھانے کی بات آتی ہے تو فیصلہ مفادات کے حق میں کیاجاتا ہے اور یہی تمام مسلمان ممالک کی بھی پالیسی رہی ہے جس کا نتیجہ فلسطینیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سمیت مسلم ممالک اظہارِ تشویش اور زبانی جمع خرچ کی حد تک تو فلسطینیوں کا ساتھ دے رہے ہیں تاہم اس حوالے سے عملی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے اور اسرائیلی پراڈکٹس کا بائیکاٹ بھی ایک ایسا ہی عملی کام ہے جو صرف جزوی طور پر ہی ہوسکا ہے۔

Related Posts