ترک سعودیہ تعلقات کی بحالی مسلم امہ کے اتحاد کیلئے ناگزیر ہے، جمیل احمد خان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ambassador Jamil Ahmad Khan

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی :پاکستان کے سابق سفیر، سینئر تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر جمیل احمد خان نے ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کودوبارہ استوار کرنے کی کوشش کا خیر مقدم کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان روابط کو مسلم امہ کے اتحاد کیلئے ناگزیر قرار دیا ہے اور زور دیا ہے کہ پیٹروڈالر سے مالامال بادشاہوں کی نیت بھی درست رہنی چاہیے۔

سی ایس ایس کے طلبہ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل احمد خان کہا کہ ترکی عالمی سطح پر بدلتے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم ممالک خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات دوبارہ بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔

ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری خوش آئند ہوگی کیونکہ گزشتہ دنوں دونوں ممالک کے تعلقات سخت کشیدگی کا شکار رہے ۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کے مصر بیسڈ مسلم برادر ہڈ کے ساتھ گہرے تعلقات کی وجہ سے بننے والی خلیج کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔

محمد مرسی کو ہٹانے کے بعد تنظیم اخوان مسلمین کے رہنمائوں کی ترکی میں پناہ دینے کی وجہ سے ترکی اور سعودی عرب کے مابین تنازع شدت اختیار کرگیا تھاجس کی اصل وجہ خلیجی ممالک کو اخوان مسلمین کے ہاتھوں ہمیشہ اپنی حکمرانی کھونے کا خدشہ رہا ہے۔

سعودی عرب اور قطر کے درمیان تنازعہ کے وقت ترکی کی جانب سے قطر میں اپنی فوجی استعداد بڑھانے کی وجہ سے کشیدگی میں مزیداضافہ ہوااور جمال خشوگی کے قتل کے واقعہ کے بعد سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات بدترین سطح پر بھی دیکھے گئے تاہم ماضی میں بھی ترکی میں گزشتہ کئی سالوں سے مختلف نظریات پر مبنی حکومتوں کے قیام کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہا ۔

مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ترکی مسلمان ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنیوالا پہلا ملک ہے تاہم طیب اردگان کی حکومت کے قیام کے بعد ترکی میں رائٹ ونگ کی سیاست بڑھتی نظر آرہی ہے۔

ترکی اور اسرائیل کے درمیان ہمیشہ گہرے تعلقات رہے ہیں اور دونوں ممالک کی افواج کے بھی دوستانہ تعلقات دیکھے جاچکے ہیں لیکن مختلف ادوار میں ترکی میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ تعلقات میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طیب اردگان کی حکومت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے، تل ابیب سے امریکی سفارتخانہ کے منتقلی کے بعد ترکی اسرائیل تعلقات میں مزید تنائو پیدا ہوا۔

مزید پڑھیں:پاکستان اورسعودی عرب کا دوطرفہ تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق

انہوں نے کہا کہ ترکی کو غالباً اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ اگر باقی خلیجی ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیتے تووہ خطے میں اپنے آپ کو تنہا کرلے گا اور اس کی ترکی کو قیمت بھی اداکرنا پڑے گی کیونکہ ایسی صورت میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکا بھی ترکی کے ساتھ تعاون کرنے میں حیل و حجت کا مظاہرہ کریگا۔

مسلم دنیا کی کثیر آبادی اس بات کی متمنی ہے کہ پاکستان اور ترکی جیسی بڑی طاقتیں خلیجی ممالک سے ملکر ایک متفقہ راستہ تلاش کرنے کی کوشش کریں وگرنہ حکمرانوں کے انفرادی مفاد کی خاطر مسلم امہ کا اجتماعی نقصان واضح نظر آتا ہے۔

Related Posts