یہ انتظار نہ ٹھہرا کوئی بلا ٹھہری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بیسویں صدی اور 40 کی دہائی میں مسلمانوں کا جوش و جذبہ عروج پر تھا جو ایک آزاد وطن کے حصول کیلئے کٹ مرنے کو تیار تھے اور تاریخ نے وہ دن بھی دیکھا جب پاکستان بن گیا اور ہم آزاد ہوگئے۔

آج ایک آزاد وطن میں گزشتہ 76سال سے سانس لینے والے شہری سوچتے ہیں کہ کیا واقعی ہم آزاد ہوئے ہیں؟ یقین کیجئے، اگر آج قائد اعظم محمد علی جناح زندہ ہوتے، وہ لوگ زندہ ہوتے جنہوں نے تحریکِ آزادی میں ان کا ساتھ دیا تو چیخ چیخ کر کہتے کہ یہ وہ آزادی نہیں ہے جس کا قائدِ اعظم یا علامہ اقبال نے خواب دیکھا تھا۔

خواب سچ ہوسکتے ہیں لیکن مفاد پرستی اور ذاتی مفادات کے حصول کو وطیرہ بنا لیا جائے تو سچ ہوجانے والے خواب بھی خون آشام حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ایسی حقیقت جسے نہ تو جھٹلایا جاسکتا ہے، نہ اگلا جاسکتا ہے اور نہ ہی نگلا جاسکتا ہے۔

پاکستان کو اسلامی جمہوریہ تو قرار دیاگیا لیکن ملک کا ایک ایسا متفقہ آئین تیار کرنے میں جان بوجھ کر اتنی دیر کی گئی کہ ایک متفقہ آئین جس پر آج ہم عمل پیرا ہیں یعنی 1973 کا آئین، اس سے 2 سال قبل ہی 1971 میں بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوگیا جس کی پہلے ہی پیشگوئی کی جارہی تھی۔

یہ پیشگوئی اس لیے کی جارہی تھی کیونکہ مسلمانانِ برصغیر کسی ایک اکائی کا نام نہیں تھا بلکہ انہیں قائد اعظم نے ایک اکائی بنایا تھا۔ یہ سکھایا تھا کہ تم سندھی، پنجابی، پشتون، بلوچ یا پھر بنگالی نہیں ہو۔ یہ تعصب اپنے اندر مت رکھنا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان تو الگ ہوگیا، یہ تعصب آج بھی ہم سے الگ نہ ہوسکا۔

آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ہو، بڑھتی ہوئی مہنگائی یا پھر توانائی کا بحران، ہر جگہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، لاقانونیت اور احمقانہ معاہدوں پر بلا چون و چرا عملدرآمد کا ایک ایسا سلسلہ نظر آتا ہے جو ہم پر واضح کرتا ہے کہ آزادی کے 76سال بعد بھی ہم آزاد نہیں ہوسکے۔

آزادی نعمت ہے، یہ یقین آج کے نوجوان کو دلانا بے حد مشکل ہے جو زندگی کے درجنوں سال تعلیم کے حصول اور پھر ملازمت کے حصول کیلئے جوتیاں چٹخانے میں گزار دیتا ہے اور سب کا یقین صرف ایک ہی ہے کہ معاشی آزادی ہی حقیقی آزادی کا نام ہے۔

ظاہر ہے کہ اگر آپ روٹی، کپڑا اور مکان کیلئے ہی سرگرداں رہیں گے تو تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے؟ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی جو ہمارے ہمسایہ ملک کو حاصل ہوئی اور اس نے چاند پر کمند ڈال دی، اس کا تو پاکستانیوں نے خواب تک نہیں دیکھا۔

جب تک خواب نہ دیکھا جائے، اس کی تعبیر نہیں ملتی۔ بلاشبہ بھارت میں معاشی بدحالی اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی داستان اس سے کہیں زیادہ دلخراش ہے جتنی کہ پاکستان میں، لیکن آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں معاشی آزادی حاصل ہے اور اگر نہیں تو کب حاصل ہوگی؟

ہمارا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے اور ایک کے بعد ایک آنے والی حکومت ہمیں مستقبل کے سہانے خواب اور سبز باغ دکھا کر بے وقوف بنانے میں مصروف نظر آتی ہے۔

موجودہ دور میں بجلی کے بحران نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ خاص طور پر بجلی کے بھاری بھرکم بلز کے باعث عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی اور بلز جلا ڈالے، لیکن کیا اس سے ان کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ سابق حکومتوں کے یہ وعدے کہ بجلی کا بحران دور کردیں گے، کبھی وفا نہ ہوسکے۔ 

خوش آئند بات یہ ہے کہ نگران حکومت نے تو ایسا کوئی وعدہ ہی نہیں کیا، صاف کہہ دیا کہ جب تک پیٹرول اور ڈالر کی قیمت کم نہیں ہوتی، بجلی سستی ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ بقول شاعر:

یہ انتظار نہ ٹھہرا کوئی بلا ٹھہری

کسی کی جان گئی، آپ کی ادا ٹھہری

Related Posts