افغان مہاجرین کا مسئلہ اور ہماری خارجہ پالیسی کیلئے سر اٹھاتے ہوئے چیلنجز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان گزشتہ کچھ دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  یہ میزبانی پاکستان کو نہ صرف معاشی اعتبار سے مہنگی پڑی بلکہ پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے بھی یہ بیرونِ ملک سے آئے ہوئے مہاجرین خطرہ بنتے چلے گئے ، جس کا سدباب اب ضروری ہوچکا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نگران وفاقی کابینہ نے حال ہی میں ایک سرکولیشن سمری کے ذریعے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم 11 لاکھ افغان مہاجرین کو  ان کے وطن افغانستان واپس بھیجنے کے فیصلے کی منظوری دی جس کا سبب یہ بنا کہ کثیر تعداد میں افغان مہاجرین دہشت گردی کے علاوہ کھاد، چینی اور ڈالرز کی غیر قانونی اسمگلنگ میں ملوث ہیں  اور دہشت گردوں کو فنڈنگ اور سہولت کاری بھی کی جارہی تھی جس سے پاکستان کی قومی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوئے جس پرحکومتِ وقت کوچاروناچار یہ ناگزیر فیصلہ کرنا پڑا۔

جب امریکانے نہایت عجلت میں   2021 میں افغانستان میں جاری 20 سالہ طویل جنگ کو کسی منطقی انجام تک پہنچائے بغیر یہاں سے سرپٹ دوڑ لگائی جس کے پیچھے افغان عوام کی کثیر تعداد بھی جہازوں میں لٹک لٹک کر اپنی زندگیاں گنوا بیٹھی کہ انہیں کسی طرح امریکا میں یا دیگر مغربی ممالک میں پناہ مل جائے، تو اس دوران 4 لاکھ افغانیوں نے پاکستان کا رخ کر لیا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ 74لاکھ افغانیوں نے پاکستان میں رہائش کے ثبوت کی تجدید نہیں کروائی ، پہلے مرحلے میں ویزوں کی تجدید نہ کروانے والوں، دوسرے میں افغان شہریت کے حا مل اور تیسرے میں پروف آف ریزیڈنس کارڈ والوں کو پاکستان سے بے دخل کیا جائے گا۔ وزارتِ داخلہ نے افغان حکومت سمیت اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے یہ پلان تیار کیا ہے، لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں جتنا دور بیٹھ کر نظر آتا ہے۔

پناہ گزینوں کی حفاظت کیلئے تشکیل دیا گیا عالمی قانون  جس پر عملدرآمد کی نگرانی اقوامِ متحدہ کا ہائی کمشنر برائے رفیوجیز (یو این ایچ سی آر) کرتا ہے ، کی رو سے پاکستان سمیت ایسا کوئی بھی ملک جہاں پناہ گزین رہائش پذیر ہوں، انہیں اس وقت تک بے دخل نہیں کرسکتا جب تک کہ ان کے حقیقی وطن میں ان کیلئے قبولیت، جان کی حفاظت  اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فضاسازگار نہ ہو لہٰذا پاکستان سے نکالے جانے والے افغان مہاجرین اپنی سہولت کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ  کرسکتے ہیں کہ اگر ہم افغانستان بھیجے گئے تو افغان طالبان سے ہمیں جان کا خطرہ ہے، درحقیقت پسِ پردہ یہ افغان مہاجرین  پاکستانی معاشرے کا نہ صرف حصہ بن گئے ہیں بلکہ اس کے بہت بڑے سہولت یافتہ معاشرتی گروہ  کے طور پر پاکستان میں اپنے کاروبار کو پروان چڑھا چکے اور اپنی نسلوں کو بھی یہاں مستقل طور پر کچھ اس طرح آباد کرچکے ہیں جیسے ا نہیں یہ ملک کبھی چھوڑنا ہی نہ ہو ۔

مہاجرین کے اسٹیٹس سے متعلق عالمی کنونشن 1951 اور 1967 کا اس کا پروٹوکول دو ایسے عالمی معاہدے ہیں جو تارکینِ وطن کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو پابند کرتے ہیں۔ اگر ہم 1951 کے کنونشن کی بات کریں تو یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد تیار کیا گیا تھا،  جس کے اندر  “مہاجرین” کی تعریف  بیان کرتے ہوئے ایسے اصول طے کیے گئے  جو پناہ گزینوں کی ان جگہوں پر جبری واپسی کو روکتے ہیں جہاں ان کی زندگی یا آزادی کو خطرہ لاحق ہو ، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ۔

اس میں  مہاجرین اور دستخط کرنے والے ممالک کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین بھی کیا گیا۔ تاہم 1951ء کا کنونشن اصل میں دوسری جنگ عظیم سے پیدا ہونے والے مہاجرین کے مسائل کو حل کرنے پر مرکوز تھا۔ اس نے پناہ گزین کی تعریف ایک ایسے شخص کے طور پر کی جس کو یکم جنوری 1951 سے پہلے کے حالات کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا، اور ممالک کو پناہ گزین کی تعریف ان لوگوں تک محدود کرنے کی اجازت دی جو یورپ میں رونما ہونے والے واقعات کے نتیجے میں بے گھر ہوئے تھے تاہم 1967 کے پروٹوکول نے 1951 کے کنونشن کی جغرافیائی اور وقتی پابندیوں کو ہٹا دیا، جس سے اس کی دفعات دنیا بھر میں پناہ گزینوں پر لاگو ہوتی ہیں جو کسی بھی وجہ سے بے گھر ہوگئے ہوں۔

افغانستان کے مقابلے میں پاکستان افغان پناہ گزینوں  کیلئے ایک جنت نظیر ملک ہے ۔ ایسے میں وہ  مذکورہ بالا عالمی قانون کا سہارا لیتے ہوئے پاکستان کو چھوڑنا اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہوئے  اس کی مخالفت کریں گے۔ ہاں، البتہ وہ افغان مہاجرین جو غریب ہیں اور یہاں کاروبار نہیں کرسکے اور جو پاکستان کی آسائشوں سے استفادہ حاصل نہیں کرسکے، اگر ان کی جان و مال کو افغانستان میں کوئی خطرہ نہ ہو تو وہ وطن واپس جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔

یہاں یہ بھی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جب تارکین وطن اپنے ملک میں واپس جاتے ہیں تو ان کی ابتدائی سیٹلمنٹ میں اقوامِ متحدہ کاادارہ  یو این ایچ سی آر معاشی و معاشرتی اعتبار سے مددکرتا  اور ان کی رہائش کیلئے سازوسامان مہیاکرتا ہے  جس سے غریب افغان مہاجرین فائدہ اٹھانے میں اپنی بھلائی سمجھ سکتے ہیں۔

یہاں اپنے وزارتِ خارجہ کی کمزوری کا ذکر نہ کرنا زیر نظر مضمون سے ناانصافی ہوگی۔ پناہ گزینوں کو پناہ دینے والا ہر ملک عالمی برادری سے پناہ گزینوں پر آنے والے بے جا اخراجات کیلئے معاونت حاصل کرنے کی تگ و دو جاری رکھتا ہے۔

حقیقتاً پاکستان اپنے ذرائع سے اربوں کھربوں روپے پناہ گزینوں پر خرچ کرچکا ہے مگر بین الاقوامی امداد حاصل کرنے میں ہمیشہ پسِ پشت رہا، حتیٰ کہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اپنے دورِ اقتدار میں اپنی خارجہ کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر بیان کردیا کہ پاکستان کو ہم نے سوویت یونین کے خلاف استعمال تو خوب کیا اور کام نکل جانے پرہاتھ جھاڑ کر واپس امریکا لوٹ آئے اور نہ صرف پناہ گزینوں کا بلکہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا عذاب بھی پاکستان کے سر تھوپ کر اپنے آپ کو فارغ البال کر لیا۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی پناہ گزین آبادی کے اعدادوشمار پر مبنی ڈیٹا بیس سے پتہ چلتا ہے کہ ترکی دنیا بھر میں پناہ گزینوں کا سب سے بڑا میزبان ملک ہے جہاں 36 لاکھ پناہ گزینوں کو رہائش کی سہولت حاصل ہے جو دنیا بھر میں تارکینِ وطن کی کل تعداد کا 10فیصد بنتا ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران دوسرا بڑا ملک ہے جہاں 34 لاکھ پناہ گزین ہیں جبکہ کولمبیا میں 25 لاکھ تارکینِ وطن بستے ہیں۔ ترکی میں بسنے والے پناہ گزین شام سے آئے جہاں 2011 سے جنگی صورتحال درپیش ہے۔

اقوام متحدہ ان ممالک کو بین الاقوامی مدد فراہم کرتا ہے جو پناہ گزینوں پر عالمی معاہدے(گلوبل کمپیکٹ) کے ذریعے مہاجرین کی میزبانی کرتے ہیں۔. گلوبل کمپیکٹ کا مقصد میزبان ممالک پر دباؤ کو کم کرنا، پناہ گزینوں کی خود انحصاری کو بڑھانا، تیسرے ملک کے حل تک رسائی کو بڑھانا، اور پناہ گزینوں کو ان کے آبائی ممالک میں واپس جانے کے لیے معاون حالات فراہم کرنا ہے۔. گلوبل کمپیکٹ حکومتوں، بین الاقوامی تنظیموں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ میزبان ممالک  کو وہ مدد ملے جس کی انہیں ضرورت  ہو۔

جب  پاکستان کی جانب سے عالمی قوانین کے تحت حاصل  سہولیات سے استفادہ نہ کرنے کی اس حد تک یقین دہانی  دنیا کے سب سے بڑے ملک کی وزیر خارجہ کی جانب سے ہوئی  تو ایسے میں پاکستانی وزارتِ خارجہ کی درست سمت میں کوششوں سے پاکستان پناہ گزینوں پر اخراجات اور اپنے نقصانات کی تلافی کیلئے اپنے کیس کو پژمردگی کے ساتھ پیش نہ کرتا بلکہ اس مقدمے کو ذہانت  ، جانفشانی اور اخلاص کے ساتھ اقوامِ عالم کے سامنے رکھنا چاہئے تھا، مگر اے کاش کہ ایسا ہوجاتا ، کیونکہ ہماری وزارتِ خارجہ کے نمائندے عالمی سطح پر اکثر اوقات کچھ اس قسم کا بیانیہ پیش کرتے ہوئے پائے گئے ہیں:
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں

کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے؟

یہ مدعا پاکستان کو خود عالمی برادری کے سامنے رکھنا ہوگا، کوئی آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ آپ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں، کیا آپ کو مالی امداد کی ضرورت ہے؟ اگر ہے تو آئیے، ہم دے دیتے ہیں۔ اس کیلئے وزارتِ خارجہ کو ایسی بھرپور حکمتِ عملی کام میں لانا ہوگی، جیسا کہ دنیا کے دیگر ممالک کئی دہائیوں پہلےسے کرتے چلے آرہے ہیں۔

Related Posts