بھاری جسامت کو قبول کرنا معاشرے کیلئے بڑا چیلنج ہے، زہرہ حسین

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Accepting a plus size human is a tough task in society: zehra hussain

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جسم سے شرمانا عالمی مسئلہ ہے، مغرب نے کسی نہ کسی طرح اس کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے لیکن پاکستان میں بھاری جسامت یاپلس سائز اب بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ دیکھنے والے عجیب نگاہوں سے دیکھتے ور ہمیشہ غیر معقول مشورے دیتے رہتے ہیں۔ زہرہ حسین نے بہت کم عمری میں اس رجحان کے خلاف کھڑے ہونے اور اس کے خلاف بولنے کا فیصلہ کیااورایک ’باڈی ایکٹوسٹ‘کے طور پر سامنے آئیں۔

زہرہ حسین ایک ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ ڈیزائنر بھی ہیں جنہوں نے پلس سائز کے لباس کا برانڈ Xeraبنایا۔ زہرہ حسین پاکستان کی پہلی ’باڈی ایکٹوسٹ‘ہیں جنہوں نے بھاری جسامت رکھنے والوں کیلئے ایک نیا زوایہ متعارف کروایا۔

ایم ایم نیوز: آپ نے Xeraکا آغاز کیسے کیا؟ اس کا کیا محرک تھا؟
زہرہ حسین: میں ہمیشہ ہی فیشن ماڈل بننا چاہتی تھی لیکن میں جانتی تھی  کہ پاکستان میں پلس سائز ماڈل کو قبول نہیں کیا جائیگالہٰذا میں نے سوچا کہ میں کچھ مختلف کروں اور میں نے ایک ایسا برانڈ اور ایک ایسی برادری بنانے کا سوچا جہاں پلس سائز کو معیوب نہ سمجھا جائے ۔

ایم ایم نیوز: آپ کو کن بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ؟
زہرہ حسین: مجھے یقین نہیں تھا کہ لوگ Xeraکے بارے میں کیا سوچیں گے ،میں جانتی تھی کہ ایک پلس سائز برانڈ کی اشد ضرورت ہے لیکن اسی کے ساتھ میں اس بات کو لیکر حیران تھی کہ ناظرین پلس سائز باڈی / ماڈلز پر کیا رد عمل ظاہر کریں گے تاہم ردعمل بہت زیادہ رہا ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ نے جسم کی پازیٹویٹی کو قبول کرنا کیسے سیکھا؟
زہرہ حسین: میں کچھ سال پہلے ایک باڈی ایکٹوسٹ بنی، یہ ایک دن میں نہیں ہوا، یہ ایک ذہنیت اور ایک ایسی حرکت ہے جو آہستہ آہستہ اپنے نفس کو متعارف کراتی ہے اور باڈی ایکٹوسٹ بننے کے بعد اپنی عزت اور خود سے محبت اور خود سے زیادہ آگاہی حاصل ہونے لگی۔

ایم ایم نیوز: آپ نے اپنے جسم کو قبول کرنا سیکھتے ہوئے کیا سبق حاصل کیا؟
زہرہ حسین: میں نے اپنے جسم کو قبول کرنے میں نڈر ہونا سیکھا ورنہ لوگ ہمیشہ اس پر تبصرے کریں گے جیسے یہ ان کی ملکیت ہے۔

ایم ایم نیوز: جسم سے متعلق معاشرے میں دقیانوسی تصورات کو کیسے تبدیل کرسکتے ہیں؟
زہرہ حسین: میڈیا اور فیشن انڈسٹری میں زیادہ سے زیادہ سائز والی ماڈلز کی زیادہ سے زیادہ مثبت نمائندگی سے دقیانوسی تصورات کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

ایم ایم نیوز: کیا آپ کو کسی قسم کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا؟ اورآپ نے اس سے کیسے نپٹا؟
زہرہ حسین: میں جانتی ہوں کہ میں کیا کر رہی ہوں اور میں ذمہ داری اور احتیاط سے چل رہی ہوں۔ میرے پاس ہمیشہ ہر طرح کی تنقید کے لئے جوابات تیار ہوتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: کیا مشہور شخصیات یا ماڈل ہمیں جسم کے بارے میں زیادہ خودغرض بناتے ہیں؟
زہرہ حسین: ہاں ، بالکل۔ مرکزی دھارے میں شامل بیشتر مشہور شخصیات میڈیا پر لوگوں کو شرمندہ کرتے ہیں اور اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ درمیانے جسم والی عورت کو جسمانی کمتر ی کا احساس دلانے میں فیشن انڈسٹری بھی ایک اہم مجرم ہے۔

ایم ایم نیوز: کیا آپ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا نے خواتین کے لئے خوبصورتی کے نئے معیار قائم کیے ہیں؟
زہرہ حسین: ہر دور میں خوبصورتی کا ایک خاص معیار رہا ہے۔ سب کے لئے قبولیت کو فروغ دینے میں سوشل میڈیا کا نمایاں کردار ہے۔

ایم ایم نیوز: ہمارے معاشرے میں پلس سائز خواتین کو کیا مشکلات درپیش ہیں ؟
زہرہ حسین: پلس سائز کا لباس ، رشتہ مسترد ہونا، میڈیا میں طنز و تضحیک، کام کی جگہ پر تمسخر، مناسب طبی امداد نہ ملنا اہم مسائل ہیں۔

ایم ایم نیوز: کیامعاشرے میں بھاری بھرکم لوگوں کو قبول کرنے کے حوالے سے کوئی تبدیلی آئی ہے ؟
زہرہ حسین: معاشرے میں بھاری جسامت کو قبول کرنے کے حوالے سے ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قبولیت کے حوالے سے اب بھی سوشل میڈیا پر ایک مکالمہ ہوتا رہا ہے لیکن ہمیں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ یہ سب گھر اور اسکول سے شروع ہوتا ہے۔ ہمیں قبولیت کا درس دینے کے لئے نچلی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Posts