ستاون ممالک کی سرد مہری ۔۔ کس بات کا پیش خیمہ ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسرائیل نے 39 دن سے جاری وحشیانہ بمباری سے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنادیا ہے، ہزاروں بے گناہ فلسطینی طاقت کے نشے میں چور بدمست اسرائیل کے مظالم کی نذر ہوچکے ہیں اور حیرت و افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اقوام عالم کے منصف دنیا بھر میں احتجاج کے باوجود اسرائیل کولگام ڈالنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

اسرائیل کے مظالم نہ تو نئے ہیں نہ کسی سے ڈھکے چھپے ہیں لیکن ہزاروں بے گناہوں کے خون ناحق اور لاکھوں افراد کے شدید احتجاج کے باوجود اقوام عالم کی خاموشی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کو مزید دوام بخش رہی ہے۔

اسرائیل اس نہج پر اچانک نہیں پہنچا کہ جہاں اس کے کسی بھی ظلم پر مہذب ممالک آنکھیں پھیرلیں بلکہ اس کے پیچھے 100 سال کا سفر ہے۔یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں مقیم یہودی بھی اسرائیل کے مظالم کیخلاف فلسطینیوں کے شانہ بشانہ ہیں تاہم صیہونی ریاست نہتے فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے سے باز نہیں آرہی ہے۔

1897میں جب پہلی بار صیہونیت کی بنیاد رکھی گئی تو صیہونی لابی نے دنیا کے طاقتور ممالک میں اپنا ایک جال پھیلادیا، دنیا کی معیشت، میڈیا اور سیاسی ایوانوں تک صیہونی اثر و رسوخ قائم کرلیا۔ امریکا میں الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش رکھنے والوں سے ایک انڈر ٹیکنگ (اقرارنامہ) لیا جاتا ہے جس کے تحت اسرائیل کی حمایت کے عوض انتخابی مہم میں دامے، درمے سخنے مدد کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے اور یہ ان سے یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ جب وہ ایوانوں میں پہنچیں تو اسرائیل کے خلاف کوئی مہم کامیاب نہ ہونے دیں اور اسرائیل کی ہمیشہ طرف داری کرتے رہیں ۔

غزہ میں کھنڈر بنتی عمارتوں کے ملبے تلی دبی انسانی لاشیں، سسکتی بلکتی خواتین اور معصوم بچوں کے جسموں کے چیتھڑوں نے نہ صرف مسلم امہ بلکہ غیر مسلم اقوام کو بھی مظاہرین کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔

برطانیہ اور دیگر بااثر ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر احتجاج کرنے والے بخوبی واقف ہیں کہ اسرائیل میں انسانیت کی تذلیل ہورہی ہے اور جس طرح انسانی حقوق پامال کئے جارہے ہیں اس نے پوری دنیا کا ضمیر جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے۔

اس وقت احتجاج کی جو لہر مغرب میں اٹھ رہی ہے، اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام کا یہ دباؤ اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر ہی دم لے گا۔ 2011میں بھی اسکی ایک مثال ملتی ہے جب عوامی احتجاج نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔

عراق پر چڑھائی کے وقت بھی لاکھوں لوگ سڑکوں پر تھے اور آج بھی لاکھوں عوام فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھارہے ہیں اور امریکا کے آئندہ انتخابات میں اسرائیل کی جارحیت کی حمایت کرنیوالوں کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

سلامتی کونسل کی قرار داد 242 میں یہ واضح ہے کہ اسرائیل فلسطین پر اپنا غیرقانونی قبضہ ختم کرے لیکن 1967سے اس قرار داد پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، اسرائیل کو امن کیلئے دو ریاستی فارمولا دیا گیا لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہوا حالانکہ سلامتی کونسل نے اس منصوبے کیلئے روڈ میپ بھی دیا تاہم اس پر بھی اسرائیل نے عمل نہیں کیا۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ 57 اسلامی ممالک او آئی سی کے اجلاس میں بیٹھ کر محض مذمت پر اکتفا کرلیتے ہیں حالانکہ عالمی قانون او آئی سی کو عملی اقدامات کا اختیار دیتا ہے۔ اسرائیل کا جوابی کارروائی کا راگ اب انسانی سسکیوں میں دب چکا ہے اور اب اسرائیل جوابی حملے کا جواز بناکر دنیا کی آنکھوں میں مزید دھول نہیں جھونک سکتا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ او آئی سی ممالک کبھی اقوام متحدہ تو کبھی عالمی عدالت کے پراسکیوٹر کی منتیں کررہے ہیں لیکن خود کوئی عملی اقدام نہیں اٹھارہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر اسلامی ممالک کےسربراہان کے مفادات مغرب سے وابستہ ہیں جس کی وجہ سے او آئی سی کا پلیٹ فارم اپنا حقیقی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔

ترکیہ، ایران اور لبنان سمیت کئی ممالک اسرائیل کے بائیکاٹ پر مصر رہے لیکن او آئی سی اس کے باوجود واضح فیصلہ نہ کرسکا۔ 2019 میں جب تل ابیب سے اسرائیل اپنا دارالخلافہ یروشلم منتقل کررہا تھا، اس وقت بھی سربراہان کے اجلاس میں اسی قسم کے فیصلے کیے گئے تھے لیکن عملی طور پر نہ اس وقت کوئی قدم اٹھایا گیا اور نہ ہی 11نومبر کو او آئی سی اجلاس میں مختلف فیصلوں میں کسی عملی اقدام کا ذکر تھا۔
غزہ میں 11 ہزار سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع کے باوجوداسلامی تعاون تنظیم محض نشستاً، گفتاً، برخاستاً کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکی، بقول شاعر
سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاج غم نہیں کرتے ،فقط تقریر کرتے ہیں

او آئی سی اقوام متحدہ کے چیپٹر 8 کے تحت وجود میں آئی اور اسلامی تعاون تنظیم کے پاس اختیار ہے کہ آپ خود قرار داد پاس کرکے عالمی کریمنل کورٹ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کے ٹرائل کی استدعا کرسکتے تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اپنی قرار داد میں اسلامی ممالک کے سربراہان التماس کرتے نظر آئے کہ ااقوامِ متحدہ خود ایکشن لے۔
اگر او آئی سی کے 57 میں سے کوئی بھی ملک چاہتا تو اسرائیل کے جنگی جرائم کے شواہد کے ساتھ عدالت میں جاسکتا تھا لیکن اس شعبے نے بھی کبھی اپنے اندر کوئی جان نہیں ڈالی اور اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی۔ اسرائیل کے بائیکاٹ کیلئے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔او آئی سی کے چارٹر کے آرٹیکل ون میں واضح ہے کہ ممبران فلسطین کا ساتھ دینگے ،او آئی سی کے چارٹر کے آرٹیکل 18 میں لکھا ہے کہ فلسطینیوں کیلئے آواز اٹھانے، انہیں حق دلوانے اور سیکورٹی کونسل کی قرار داد پر عملدرآمد کیلئے الگ سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا ہے لیکن اس شعبہ کی بھی نہیں سنی گئی۔

اسلامی ممالک کی چشم پوشی کی وجہ سے اسرائیل بدمست ہاتھی کی طرح تمام قوانین کو پیروں تلے روندتا جارہا ہے اور حزب اللہ کے حملوں میں بھی ماضی جیسی شدت نہیں رہی کیونکہ ایک طرف اسرائیل نواز ممالک کے بحری بیڑے حزب اللہ کے سامنے کھڑے ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے ٹینکوں کی قطاریں حزب اللہ کے سامنے کھڑی کردی ہیں۔

حالات و واقعات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل 1897میں شروع ہونے والے گریٹر اسرائیل منصوبے پر پیش قدمی اور اس پر بتدریج اپنے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر چھوڑتا نظر نہیں آرہا۔ لیکن ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سرچھپاکر نہ جانے کب تک ظلم و ستم کی داستانوں سے نظریں چراتے رہیں گے!
خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار یہودی بھی اسرائیل کی صیہونی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ ہمارے نام پر قتل و غارت گری نہ کرو لیکن ضروری یہ ہے کہ پیٹرو ڈالر سے مالا مال اسلامی ممالک کے حکمران تھوڑی سی ہمت دکھائیں اور او آئی سی کے چارٹر پر ہی عمل کیلئے میدان میں آجائیں تو پوری دنیا کے درد دل رکھنے والے عوام ان کے ہم قدم ہوسکتے ہیں ، وگرنہ، بقول اقبال:
ع: تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔

Related Posts