جب اسرائیل کی ناک رگڑی گئی۔دوسری قسط

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دونوں موساد ایجنٹس کو نالے سے سڑک پر لایا گیا اور فوری طور پر ایک ٹیکسی میں بٹھا دیا گیا۔ ڈرائیور نے ہجوم کے سامنے سعد الخطیب سے پوچھا

”کہاں جانا ہے؟“

سعد الخطیب نے جواب دیا:

”انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر چلو۔“

لیکن جب ٹیکسی ہجوم کو پیچھے چھوڑ آئی تو سعد الخطیب نے نئی ہدایت دیتے ہوئے کہا:

”وادی السیر پولیس سٹیشن چلو“

ادھر خالد نے فوراً اپنی تنظیم کے پولیٹکل بیورو کا اجلاس طلب کرکے شرکاء کو واقعے کی پوری تفصیل سے آگاہ کیا۔ کسی کو کچھ بھی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ یہ ہوا کیا ہے؟ خالد پر کوئی خراش تک نہ تھی۔ وہ پوری طرح ہوش و حواس میں بھی تھے۔ اور واقعہ ہوا پوری سنجیدگی کے ساتھ تھا۔ واردات کرنے والے فوراً موقعے سے مجرموں کی طرح فرار بھی ہوگئے تھے۔ واردات میں استعمال ایک عجیب سی ڈیوائس ہوئی تھی جس نے خالد کے جسم میں کرنٹ سا دوڑایا تھا اور بائیں کان میں ایک عجیب سا شور پیدا کیا تھا۔

اس ناقابلِ فہم صورتحال میں اجلاس کے ارکان نے واردات سے آگہی کیلئے ایک نہایت دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ یہ کہ فوری طور پر واردات اور اس کی تفصیل سے میڈیا کو آگاہ کردیا جائے۔ یوں دنیا بھر میں بہت سے ماہرین یہ مدد فراہم کرنے کے لئے حرکت میں آجائیں گے کہ ممکنہ طور پر اس واردات میں ہوا کیا ہے؟ چنانچہ فوری طور پر عمان میں اے ایف پی کی بیوروچیف رندہ حبیب سے رابطہ کیا گیا اور انہیں واقعے سے آگاہ کیا گیا۔ رندہ حبیب اس دن کو یاد کرکے اس کی تفصیل کچھ یوں بیان کرتی ہیں۔

”مجھے محمد نزال نے بتایا کہ خالد پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ اور جب اس کی تفصیل بتائی تو کسی عجیب سی ڈوائس کے استعمال کا بتایا۔ مگر اس واقعے میں نہ کوئی دھماکہ تھا، نہ فائرنگ، اور نہ ہی زخم۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یقین تھا کہ یہ سچ کہہ رہے۔ یوں یہ ایک عجیب و غریب صورتحال تھی۔ یہ تنظیم موساد پر مختلف طرح کے الزامات لگاتی رہتی ہے۔ لیکن یہ اگر محض الزام ہوتا تو کہانی کوئی معقول سی گھڑی جاتی۔ اس سٹوری کا کنفیوز کرنا اس بات کی دلیل تھی کہ واقعی کچھ ہوا ہے اور انہیں بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے انہیں کہہ دیا کہ میں واقعہ میڈیا پر رپورٹ تو کر رہی ہوں مگر ”ذرائع“ کہہ کر کروں گی، کیونکہ میں نے بچشم خود کچھ نہیں دیکھا۔“

یوں 25 ستمبر 1997ء کی رات 11 بجے خبر بریک ہوگئی۔ ریڈیو مونٹی کارلو سے خود رندہ حبیب نے اسے بریک کیا۔ ردعمل وہی آیا جو عام طور پر پہلے سرکاری ردعمل میں ہر جگہ ہوتا ہے۔ اردن کے حکام جو واقعے سے بالکل بے خبر تھے رندہ حبیب پر برسنا شروع ہوگئے کہ آپ نے ہم سے کنفرم کئے بغیر اتنی بڑی خبر کیسے بریک کردی؟ اکثر نے واقعے کی نفی ہی نہ کی بلکہ بعض نے تو رندہ حبیب سے یہ بھی کہہ دیا کہ خالد تو یہاں ہیں ہی نہیں۔ مگر رندہ حبیب کا مؤقف تھا کہ اے ایف نے اپنا کوئی دعوی نہیں کیا بلکہ تنظیم کے دعوے کو پیش کیا ہے۔ اور اگر یہ سچ ہے تو یہ اسرائیل اور اردن کے امن معاہدے پر موساد کا براہِ راست حملہ ہے جو سنگین معاملہ ہے۔ لہٰذا اس کی خبر نہیں دبائی جاسکتی۔

خبر کچھ ہی دیر میں مختلف ممالک کے عرب میڈیا پر بھی آگئی۔ اردن کے حکام نے اس پر اپنا پہلا باضابطہ ردِعمل یہ دیا کہ واقعہ بس اتنا سا ہوا ہے کہ خالد کے باڈی گارڈ اور دو کینیڈین سیاحوں کے مابین لڑائی ہوئی ہے۔ بظاہر نظر بھی یہی آرہا تھا کیونکہ خالد تو صحیح سلامت موجود تھے اور دو افراد کی ان کے باڈی گارڈ کے ساتھ خون ریز جھڑپ ہوئی تھی جو کینیڈین پاسپورٹ پر اردن کے دارالحکومت عمان آئے تھے۔

خود وزیرِ اطلاعات نے رندہ حبیب سے رابطہ کرکے کہا کہ آپ کی اسٹوری جھوٹ کا پلندہ ہے اس کی تردید جاری کیجئے۔ یہ بس باڈی گارڈ اور دو سیاحوں کی لڑائی تھی اور اس میں قصوروار بھی خالد کا باڈی گارڈ ہے کیونکہ لڑائی اس نے شروع کی۔ تجربہ کار رندہ حبیب ”کینیڈین“ لفظ پر چونکیں۔ انہیں وہ سرا مل گیا تھا جہاں سے وہ اپنی تحقیق شروع کر سکتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے فوری طور پر کینیڈا کے عمان میں قائم سفارخانے سے رابطہ کیا اور پوچھا

”آپ کے دو شہری وادی السیر پولیس سٹیشن میں گرفتار ہیں، کیا آپ اس واقعے سے باخبر ہیں اور اسے کنفرم کرتے ہیں؟”

سفارتخانے سے رندہ کو جو جواب دیا گیا وہ چونکا دینے والا تھا:

”ہمارے قونصل پولیس اسٹیشن گئے تھے مگر دونوں افراد نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔“

یہ جواب چونکا دینے والا اس لئے تھا کہ جب کوئی شہری کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر گرفتار ہوتا ہے تو اس کی اوّلین خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسے فوری طور پر اپنے قونصل تک رسائی دی جائے۔ مگر یہاں معاملہ الٹا تھا۔ دونوں گرفتار افراد کینیڈین قونصل سے ہی ملنے کو تیار نہ تھے۔ رندہ حبیب فوراً سمجھ گئیں کہ یہ دونوں کینیڈین نہیں ہیں۔ مگر بقول ان کے فی الحال ثبوت اس بات کا بھی موجود نہ تھا کہ یہ دونوں اسرائیلی ہیں۔ اسی دوران حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے اردن کے انٹیلی جنس چیف میجرجنرل سمیح بطیخی سے رابطہ کیا تاکہ کچھ تفصیل معلوم ہوسکے۔ مگر ان کا بھی کہنا یہی تھا کہ یہ تین افراد کی لڑائی کا معاملہ معلوم ہوتا ہے۔

اس پوری صورتحال میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خالد مشعل ٹھیک ٹھاک نظر آتے ہیں، سو حماس بھی کنفیوژن کا شکار ہے۔ اور چونکہ خالد بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور ایک نالے میں ان کے باڈی گارڈ کی بظاہر کینیڈین شہری نظر آنے والے دو سیاحوں سے لڑائی ہوئی ہے تو اردنی حکام کو یہی لگ رہا ہے کہ یہ کوئی قاتلانہ حملہ نہیں۔ بس گارڈ کی سیاحوں سے لڑائی کا معاملہ ہے۔ صورتحال نے چونکا دینے والا موڑ تب لیا جب کچھ گھنٹے بعد خالد مشعل کی طبیعت بگڑنی شروع ہوئی۔ بقول ان کے:

”مجھے اچانک کمزوری محسوس ہونے لگی اور غنودگی طاری ہونے لگی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے مجھے انستھیزیا دیا جا رہا ہو۔ آس پاس کی چیزیں نظر آرہی تھیں مگر میں پوری طرح حواس میں نہ تھا۔“

یہ کیفیت بڑھنے لگی تو خالد مشعل کو فوری طور پر اسلامک ہاسپٹل آف عمان پہنچا دیا گیا، جو ایک مذہبی این جی او کا رفاہی ہسپتال تھا۔ حماس نے خالد کیلئے اس کا انتخاب اس سوچ کے ساتھ کیا کہ وہاں خالد زیادہ محفوظ ہوں گے۔مگر مسئلہ یہ پیش آ گیا کہ ڈاکٹر تشخیص ہی نہ کر پا رہے تھے کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے یا ہو کیا رہا ہے؟ چنانچہ ان کی تصویر میڈیا کو ریلیز کردی گئی تاکہ ماہرین طب یا کوئی اور اس معاملے میں مدد فراہم کرسکتا ہو تو کردے۔ اے ایف پی کی بیوروچیف رندہ حبیب کہتی ہیں

”وہ تصویر میرے پاس آئی تو خالد کومے میں لگ رہے تھے، اور ان کی حالت ٹھیک نہ تھی۔ سو مجھے یقین ہوگیا کہ ان پر قاتلانہ حملہ ہی ہوا ہے۔“

چنانچہ یہ وہ موقع تھا جب اردن کے حکام نے شاہ حسین کو اس واقعے سے آگاہ کردیا۔ کیونکہ حکام سمجھ گئے تھے کہ جو معاملہ محض تین افراد کی لڑائی کا نظر آرہا تھا وہ اب خالد مشعل کے کومے میں جانے سے ایک سنگین شکل اختیار کرگیا ہے۔ لہٰذا اگر اس میں واقعی اسرائیل ملوث ہے تو یہ اردن اور اسرائیل کے مابین ہونے والے امن معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔اسی دوران موساد نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو بھی آگاہ کردیا تھا کہ وہ واردات میں رنگے ہاتھوں پکڑی جاچکی اور یہ کہ اس کے دو ایجنٹ اس وقت عمان میں اردنی حکام کی تحویل میں ہیں۔ موساد کے اس وقت کے سربراہ ڈینی یاتون کہتے ہیں

”جب میں نے نیتن یاہو کو آگاہ کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم فوراً شاہ حسین سے خود رابطہ کرکے انہیں یقین دلا دو کہ ہم آپ کو تریاق فراہم کردیتے ہیں جس سے خالد مشعل پر زہر کا اثر ختم ہوجائے گا اور وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوجائیں گے، مگر آپ معاملہ دبا دیں، اسے بڑھنے نہ دیں۔“ (جاری ہے)

Related Posts