پاکستان دنیا کا محور ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اب وقت آگیا ہے کہ عسکری اور معیشت کے لحاظ سے طاقتور ترین مسلم ممالک کو دنیا کے امور میں ایک سرگرم قیادت کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ افسوسناک امر ہے کہ سال قبل تشکیل دی گئی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) مسلمانوں کے خلاف ہونےوالے مظالم پر اقدامات کرنے میں ناکام ہے جس میں مسئلہ کشمیر ، فلسطین ، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ جیسے معاملات شامل ہیں۔

دسمبر 2019 میں کوالالمپور میں ہونے والے اجلاس میںمسلم ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کرنی تھی جس میں ترکی ، پاکستان ، ملائشیا ، ایران ، انڈونیشیا ، اور قطر کے رہنماشامل ہیں ۔ بد قسمتی سے وزیراعظم پاکستان عمران خان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ’دوستانہ‘ ممالک کے دباؤ کے باعث اجلاس میں شرکت سے دستبردار ہوگئے تھے جن کا خیال تھا اس اجلاس سے مسلم دنیا تقسیم ہوگی اور او آئی سی کو چیلنج کیا جائے گا۔یہ کافی مایوس کن لمحہ تھا جب وزیراعظم نے دوست ممالک کے دباؤ میں آکر کے ایل سمٹ سے دستبرداری اختیار کی جو مسلم امہ کے لے سیاسی ، سائنسی ، معاشی قوت بننے اور متحد ہونے کا اچھا موقع تھا۔

یہ فورم مسلم ممالک کے درمیان تجارت کو بہتر بنانے ، مسلمانوں کی حالت زار کو اجاگر کرنے ، اور اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لئے مثبت نقطہ نظر پیش کرنےکےحوالے سے ٹھوس اقدامات پیش کرنے میں کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں اس حوالے سے ایک پلیٹ فارم او آئی سی موجود ہے تاہم اس وقت یہ غیر مؤثر نظر آرہا ہے۔ او آئی سی پر سعودی عرب کی اجارہ داری سے ایک خلا نظر آرہا ہے جسے پر کرنے کے لیے بالآخر کسی اور فورم کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور خلیجی عرب ممالک کو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

اگر سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ریاستیں چاہتی ہیں کہ او آئی سی واحد فورم بن جائے جو مسلم ممالک کی نمائندگی کرے تو پھر اسے مثالی رہنمائی کرنا ہوگی اور برادر مسلم ممالک کے مفادات کا احساس کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر فروری 2019 میں بالاکوٹ پر بھارتی فضائی حملوں کے بعد متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے اعتراضات کے باوجود ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج کو ابوظہبی میں منعقدہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی جس نے ہمیں اجلاس کے بائیکاٹ پر مجبور کردیا تھا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے سوال ہونا چاہیے کہ امت مسلمہ کے اتحاد کی فکر اس وقت کہاں گئی تھی جب ہندوستان جیسے ایک غیر مسلم ملک کو او آئی سی کے اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا جو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر بدترین مظالم کرتا رہتا ہے اور انہیں حق خود ارادیت دینے کا انکاری ہے۔ اگر کے ایل سربراہی اجلاس او آئی سی کی بالادستی کے لئے خطرہ تھا تو پھر عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل جیسی تنظیمیں کیوں موجود ہیں؟ کیا وہ او آئی سی اور مسلم اتحاد کے لئے خطرہ نہیں ہیں؟۔
چین ، روس اور فرانس میں مسلم اقلیتی آبادی والے اہم ممالک میں شامل ہیں، انہیں او آئی سی کے اجلاسوں میں کیوں نہیں بلایا جاتا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانسیسی مسلم آبادی متحدہ عرب امارات کی مسلم آبادی کے برابر ہے لیکن کیا ہم فرانس کو ایک مسلمان ملک سمجھتے ہیں؟۔

کے ایل سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے پردوست ممالک نے جس طرح سے پاکستان کو بلیک میل کیا وہ حکومت اور قوم دونوں کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ ہمیں اپنی خودمختاری کو مستحکم کرنے کے لئے پاکستان کو ایک معاشی طاقت کی حیثیت سےمنوانے کی ضرورت ہے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کے عین مطابق ایک ممتاز مسلم ریاست بننا ہوگا۔ قائد اعظم نے پاکستان کو مسلم دنیا کی رہنمائی اور قائدانہ کردار ادا کرنے کا تصور دیا تھا ، جو ہمارے روحانی بانی علامہ اقبال کی طرح ہی ایک اہم مسلم ریاست کے نظریے پر مشتمل تھا۔

12 اپریل 1948 کو ، قائداعظم نے پاکستان کے اسلامی نظریے کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ایک ایسی ریاست کی تشکیل کررہے ہیں پو ری اسلامی دنیا کی تقدیر میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے گی۔لہٰذا ہمیں ایک ایسے وسیع نظریے کی ضرورت ہے جو صوبائیت ، قوم پرستی اور نسل پرستی سے بالاتر ہو۔

جب امریکی صحافی مارگریٹ بورکے وائٹ نے قائد اعظم سے پاکستان کے مستقبل اور اس کی دنیا میں حیثیت سے متعلق سوال پوچھا تو قائد اعظم نے جواب دیا تھا پاکستان دنیا کا محور ہے اور ایسی پوزیشن پر ہے کہ دنیا کا مستقبل اس کے گرد گھومتا ہے۔

امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان بابائے قوم کے وژن پر کام کریں گے جس کا مقصد پاکستان کو ایک ممتاز مسلم ریاست بنانا اور اہم امور پر مسلم دنیا کی قیادت کرنا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی بہتری کے لئے ترکی اور ملائشیا کی طرح ہم خیال ترقی پسند مسلمان ممالک کے ساتھ تعاون کریں اور ’دوستانہ‘ ممالک کو ہمیں دھونس نہ دینے دیں۔ ایک معاشی طور پر مضبوط اور ترقی پسند پاکستان مسلم امہ کی قیادت کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوگا جس کا تصور بابائے قوم نے پیش کیا تھا۔

Related Posts