پنجاب اسمبلی میں نئے اسپیکر کا انتخاب، اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پنجاب اسمبلی میں نئے اسپیکر کا انتخاب، اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
پنجاب اسمبلی میں نئے اسپیکر کا انتخاب، اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما، سینئر سیاستدان اور سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا، حمزہ شہباز وزارتِ اعلیٰ سے محروم ہو گئے اور اب پنجاب اسمبلی میں نئے اسپیکر کا انتخاب ہونے والا ہے۔

زیادہ تر تجزیہ کاروں کی آراء کے برعکس تحریکِ انصاف نے پنجاب کے ضمنی انتخاب میں میدان مار لیا جس کے بعد سے ہی مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی میں کس کا پلڑا بھاری ہے، یہ آہستہ آہستہ عیاں ہونے لگا۔ آئیے تمام تر حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔

ضمنی انتخابات کے نتائج 

صوبہ پنجاب کے 14 اضلاع میں 17 جولائی کو قانون ساز اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے جس کے بعد صوبائی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن الٹ پلٹ ہوگئی کیونکہ تحریکِ انصاف نے 15 نشستیں اپنے نام کر لی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) نے 4 نشستیں اپنے نام کیں جبکہ ایک نشست آزاد امیدوار کے نام رہی۔ یہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کا وہ نتیجہ تھا جس نے پنجاب میں سیاست کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور وزیر اعلیٰ کو اپنے عہدے سے ہٹنا پڑ گیا۔ 

پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن 

ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی، ن لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کی پوزیشنز واضح ہوگئیں۔ پی ٹی آئی سب سے زیادہ نشستوں کے ساتھ صوبے کی سب سے اہم جماعت بن گئی۔

اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پہلے 163 اراکین تھے لیکن ضمنی انتخابات میں 15 مزید نشستیں حاصل کرنے کے بعد قانون ساز اراکین کی تعداد 178 پر جا پہنچی جبکہ اس کی اتحادی جماعت ق لیگ کے اراکین 10 ہیں۔

دونوں سیاسی جماعتیں صوبائی اسمبلی میں 188 اراکین کی بھاری بھرکم نمائندگی رکھتی ہیں۔ ن لیگ کے پنجاب اسمبلی میں 164 اراکین تھے اور ضمنی انتخابات کے بعد یہ تعداد 168 تک جا پہنچی۔

پیپلز پارٹی کے پنجاب میں 7 اراکین ہیں جبکہ 3 آزاد اراکین اور ایک راہِ حق پارٹی کے رکن کو ملانے کے بعد ن لیگ اور اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر صوبائی اسمبلی کی 179 نشستیں ہیں۔

تاحال رکنِ پنجاب اسمبلی چوہدری نثار صوبائی اسمبلی میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں سے بے نیاز اور غیر فعال نظر آتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے 371 کے ایوان میں ن لیگ کے 2اراکین مستعفی ہوگئے تھے۔ 

سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ 

آج سے 3 روز قبل سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ حمزہ شہباز بطور وزیر اعلیٰ مزید کام نہیں کرسکتے۔ چوہدری پرویز الٰہی رات کے وقت ہی حلف اٹھا لیں، چنانچہ اسپیکر پرویز الٰہی حلف برداری کیلئے گورنر ہاؤس جا پہنچے۔

رواں ہفتے 26 جولائی کی شب سپریم کورٹ فیصلے کے تحت چوہدری پرویز الٰہی جب گورنر ہاؤس پہنچے تو ہاؤس کا انٹری گیٹ مہمانوں کیلئے بند کردیا گیا اور گورنر پنجاب نے حلف لینے سے معذرت کر لی۔ 

پرویز الٰہی کی حلف برداری 

سیاسی اتھل پتھل پر مبنی حیرت انگیز واقعات سے بھرپور پاکستانی تاریخ نے وہ رات بھی دیکھی جب چوہدری پرویز الٰہی نے راتوں رات ایوانِ صدر جا کر وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا اور ان سے حلف لینے والے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی تھے۔ 

حیرت انگیز طور پر حلف برداری کی یہ تقریب میڈیا پر براہِ راست نشر نہ کی جاسکی جس پر پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ نامزد کرنے میں پیش پیش ان کی حلیف سیاسی جماعت پی ٹی آئی نے غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔

سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ جو لوگ پرویز الٰہی کی تقریبِ حلف برداری براہِ راست نشر نہ کرنے کا باعث بنے ہیں، وہ مستقبل قریب میں اپنے عہدوں پر نہیں رہیں گے۔ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ 

اسپیکر کیلئے امیدوار

اصولی طور پر سابق اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے وزیر اعلیٰ کی نشست کیلئے اسپیکر کی نشست چھوڑ دی ہے اور اب پی ٹی آئی اور ق لیگ کی جانب سے سبطین خان کو اسپیکر کے عہدے کیلئے امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔

اسپیکر کی نشست کیلئے ن لیگی امیدوار سیف الملوک کھوکھر بھی میدان میں اتر چکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی اجلاس کے دوران اراکین خفیہ رائے شماری کے ذریعے نئے اسپیکر کا انتخاب کریں گے۔ 

جیت کس کی ہوگی؟

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ تو نمبر گیم کے اعتبار سے پی ٹی آئی اور ق لیگ کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے اور سبطین خان ہی اسپیکر کے طور پر ہاٹ فیورٹ قرار دئیے جارہے ہیں۔

دوسری جانب ووٹنگ کا عمل شو آف ہینڈز کی بجائے خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونے والا ہے، لہٰذا اراکینِ اسمبلی کی ذاتی پسند نا پسند اور ترجیحات بھی الیکشن کے عمل پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ 

 

Related Posts