معیشت کہاں کھڑی ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا دی گئی، آج ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ معاشی محاذ پر مکمل طور پر ناکام رہی ہے پھر بھی ساری توجہ سیاسی بحران کی طرف مبذول کر دی گئی ، ہم  ملک کی معاشی تباہی سے توجہ ہٹا رہے ہیں۔

ہوا کچھ یوں کہ عمران خان 18 اگست 2018 کو وزیر اعظم بنے اور 8 اپریل 2022 کو انہیں وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوش کیا گیا، گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران معاشی صورتحال ابتر ہوئی، مہنگائی بڑھی اور ملکی قرضوں کا انبار لگ گیا۔ سیاسی بیان بازی تو ہوئی مگر پی ٹی آئی حکومت کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔ آج ہمیں اس کی کارکردگی پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

جب پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تو عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں 75.5 ڈالر فی بیرل کے قریب تھیں اور ان کی برطرفی کے دن یہ قیمت 101.26 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی جو کہ 34.11 فیصد اضافہ ہے۔ اگست 2018 میں پیٹرول 95.24 روپے فی لیٹر فروخت ہورہا تھا جبکہ آج 57.33 فیصد اضافے کے ساتھ 149.85 روپے میں دستیاب ہے۔ 

شہباز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد گزشتہ ایک ماہ میں تیل کی عالمی قیمتیں مزید بڑھ کر 108.95 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہیں لیکن حکومت نے اب تک ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

دوسری جانب عمران خان کی حکومت کے دوران بھی اسٹاک مارکیٹ کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ 17 اگست 2018 کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج 42,466 پوائنٹس پر بند ہوا تھا۔ 11 اپریل کوعمران کی برطرفی کے بعد 1,700 پوائنٹس کا ریکارڈ  اضافہ ہوا اور انڈیکس 46,144 پوائنٹس پر بند ہوا لیکن پھر جلد ہی گر گیا۔

پھر 12 مئی کو یہ 42,898 پوائنٹس پر بند ہوا۔ لہٰذا حقیقی معنوں میں حکومت کی طرف سے دی جانے والی مراعات کے باوجود اسٹاک مارکیٹ نے کوئی بڑا فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پچھلے دور میں اسٹاک مارکیٹ تقریباً دوگنی ہوگئی تھی کیونکہ معاشی اشاریوں نے لچک دکھائی اور سرمایہ کاروں کو کیپٹل مارکیٹ کی طرف راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔

موجودہ صورتحال میں جی ڈی پی میں کمی آئی ہے، یعنی معیشت سکڑ گئی ہے۔ اگست 2018 میں کل جی ڈی پی 314 اعشاریہ 6 ارب ڈالر کی مستحکم سطح پر تھا اور  آج یہ 292 ارب ڈالر ہے۔ بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا کیونکہ پی ٹی آئی حکومت نے 95.5 سے بڑھ کر 118 ارب ڈالر تک قرضے لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ ملکی قرضوں کا تخمینہ جی ڈی پی کا 71.3 فیصد رہا۔

رواں برس جی ڈی پی کی شرح نمو 4.4 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ 2018 میں زرِ مبادلہ ذخائر 16.383 ارب ڈالر تھے۔ آج بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارے، بڑھتے ہوئے درآمدی بل اور خشک کیش فلو کی وجہ سے کم ہو کر 10.3 ارب ڈالر پر آ گئے ہیں۔

کریلے پر نیم چڑھا یہ کہ مہنگائی کی شرح اس وقت سے بڑھتی ہی جارہی ہے اور یہ پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی قرار دی جاسکتی ہے۔ 2021 میں مہنگائی کی شرح سال کے بیشتر حصے میں دوہرے ہندسوں میں رہی جس سے عام آدمی کی معاشی پریشانیوں میں اضافہ ہوا۔ حتیٰ کہ عمران خان نے اعتراف کیا کہ اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتیں ان کی راتوں کی نیند حرام کرچکی ہیں تاہم  انہوں نے آسمان کو چھوتی مہنگائی پر قابو پانے کیلئے قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔

موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو ملک کو معاشی بحران سے نکالنا ہو گا۔ بہت بڑے چیلنجز کے پیش نظر سیاسی قیادت کو معاشی اصلاحات لانے، توانائی کے شعبے کو ترقی دینے اور ٹیکس محصولات میں اضافے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اقتصادی ترقی کو سہارا دینے کے لیے حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی راغب کرنے کی ضرورت ہے۔بہتر ہے کہ یہ تمام ضروری اقدامات اٹھا لیے جائیں، اس سے پہلے کہ ملک معاشی تباہی کی جانب چل نکلے۔ 

Related Posts