طبقاتی فرق اور کورونا کا مسئلہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دسمبر 2019ء میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد سے لے کر اب تک تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ گزرچکا ہے۔ وائرس کے باعث دنیا بھر میں 33 لاکھ سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ کیسز میں کمی بیشی کے لحاظ سے اقوامِ عالم لاک ڈاؤن لگانے یا نہ لگانے کا فیصلہ کر رہی ہیں جس سے ان طبقات کے مابین ایک واضح تفریق نظر آنے لگی ہے جو کورونا جیسے وبائی مرض سے لاحق خطرے کو تسلیم کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں اور جو نہیں ہوسکتے۔

پاکستان میں کورونا کے باعث کاروبار پر پابندیوں اور ایس او پیز کے نفاذ پر سخت مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ ایک طرف تو وائرس کے وجود سے انکاری افراد ہیں جبکہ دوسری جانب وہ طبقہ ہے جو اصرار کرتا ہے کہ قوم عام آدمی کو زیادہ تکلیف پہنچائے بغیر ہی بڑے سانحوں سے بچ گئی ہے۔ پہلی قسم کے افراد سے الجھنا عبث ہے کیونکہ ایسے ہی افراد کے متعلق مارک ٹوین نے ایک بار کہا تھا کہ کسی بے وقوف سے بحث مت کرنا کیونکہ وہ آپ کو اپنی سطح پر لا کر تجربے سے مات دے سکتے ہیں تاہم دوسرا طبقۂ فکر کچھ توجہ کا متقاضی ضرور ہے۔

کورونا کے باعث پاکستان میں پہلی بار کسی شخص کا انتقال 18 مارچ 2020ء کے روز ہوا۔ اس کے بعد تقریباً 14 ماہ کا عرصہ گزر چکا جس کے دوران 8 لاکھ 73 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے اور 19 ہزار 300 افراد انتقال کر گئے۔ بلاشبہ ہر زندگی غیر معمولی قدروقیمت کی حامل ہوتی ہے تاہم عملیت پسندی ایک تقابلی طرزِ عمل چاہتی ہے تاکہ یہ غور کیا جاسکے کہ اسی اعتبار سے ضروری اقدامات بھی اٹھائے گئے یا نہیں۔ کینسر، تپ دق اور ایڈز جیسی امراء کی بیماریوں سے ہونے والی اموات کو بھی اکثر کورونا کا لیبل لگا دیا جاتا ہے جس سے حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کو جواز فراہم کرنا مقصود ہوتا ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ تنقید کی مسلسل روش نے عملیت پسندی کی عقلیت مفقود کردی کیونکہ ناقدین اکثر گھوڑوں کا مقابلہ گدھوں سے کرتے نظر آتے ہیں۔

بلاشبہ کینسر دنیا کی سب سے خوفناک بیماریوں میں سے ایک ہے۔ عالمی کینسر آبزرویٹری کے جمع کردہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سن 2020ء میں پاکستان میں کینسر کے 1 لاکھ 78 ہزار 388 نئے کیسز اور 1 لاکھ 17 ہزار 149 اموات ریکارڈ کی گئیں جو کورونا سے ہونے والی اموات کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ ہیں۔ کورونا اور کینسر میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ کینسر متعدی بیماری نہیں ہے۔ نتیجتاً پابندیوں یا کام کے اوقاتِ کار محدود کرنے سے کینسر کے وہ سالانہ کیسز کم نہیں ہوں گے جو ہسپتالوں میں رپورٹ کیے جاتے ہیں تاہم ایڈز اور تپ دق جیسی متعدی بیماریوں کا کیا کیا جائے؟

عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال تپ دق کے 4 لاکھ 10 ہزار کیسز رپورٹ کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں 69 ہزار افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں جو کورونا کے باعث ہونے والی اب تک کی اموات سے 3 گنا زیادہ ہے۔ اگرچہ ٹی بی بھی متعدی بیماری ہے لیکن کورونا کے برعکس ایک شخص سے دوسرے شخص میں یہ بیماری منتقل ہونے کیلئے کسی متاثرہ فرد سے دیرینہ تعلق ضروری ہوجاتا ہے۔ مزید برآں تپ دق پھیپھڑوں پر حملہ آور ہونے والے ایک بیکٹیریا کے باعث پیدا ہوتی ہے، نتیجتاً اس کا علاج اینٹی بائیوٹکس سے کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب کورونا ایک ایسا وائرس ہے جس کا علاج بنی نوع انسان کو دستیاب نہیں۔ پھر ایڈز کا کیا کیا جائے جو متعدی بھی ہے اور اس کا بھی کوئی علاج نہیں؟

سن 2019ء میں عالمی ادارۂ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے 1 لاکھ 90 ہزار سے زائد بالغ اور بچے ایڈز کا شکار ہوئے اور 68 ہزار افراد اسی برس جان کی بازی ہار گئے کیونکہ ایڈز لاعلاج ہے۔ یہ ہلاکتیں اب تک کورونا کے باعث ہونے والی اموات کے مقابلے میں 3 گنا سے زیادہ ہیں۔ تاہم کورونا کے برعکس ایڈز ہوا سے یا سانس کے ذریعے نہیں بلکہ انتقالِ خون یا جنسی تعلق سے پھیلتا ہے۔ نتیجتاً حکومت سے یہ اصرار بے کار ہے کہ کورونا کے مقابلے میں ایڈز جیسی بیماری کیلئے بھی ویسے ہی سخت اقدامات اٹھائے۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ مالی زنجیر کے آخری سرے پر موجود افراد کورونا وباء سے معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان کی تنخواہیں کم ہو گئیں اور پس انداز کی گئی رقوم بھی ختم ہو گئیں کیونکہ ہر گزرتے روز کے ساتھ مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ اور زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ تاہم کورونا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے پابندیوں کا اطلاق اس لیے عمل میں نہیں لایا گیا کیونکہ غریبوں کی جانیں بچانا مقصود تھا بلکہ یہ اس لیے ہوا کیونکہ کورونا سے امیروں کو بھی یکساں خطرات لاحق ہیں۔ کورونا ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا ردِ عمل قومی سطح پر آنا چاہئے۔ حکومت چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، اسے پابندیوں کو سخت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اگر ہم بطور شہری اپنی ذمہ داریوں سے سنجیدگی سے عہدہ برآ ہوسکیں۔

بے شمار پاکستانی شہری آج بھی بازاروں میں ماسک پہن کر گھومتے تو نظر آتے ہیں لیکن ماسک سے ان کی محض ٹھوڑیاں ڈھکی ہوتی ہیں، ناک نہیں۔ مساجد میں بڑے پیمانے پر عبادت گزار مل بیٹھ کر دعائیں کرتے ہیں۔ ویکسینیشن مراکز میں سیکڑوں لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور کسی بھی سماجی فاصلے کی پابندی کیے بغیر ڈاکٹروں کا انتظار کرتے ہیں۔ کورونا کے پھیلاؤ پر اپنے آپ کو نظر انداز کرکے حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا بہت آسان ہے۔ فاقے سے یا کورونا کے باعث موت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ ہمیں اپنے عملی اقدامات کی ذمہ داری خود لے کر زندہ رہنے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ 

Related Posts