جب پاکستانی سفیر نے نواز شریف کو ترک کباب نہ کھانے دئیے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جب پاکستانی سفیر نے نواز شریف کو ترک کباب نہ کھانے دئیے
جب پاکستانی سفیر نے نواز شریف کو ترک کباب نہ کھانے دئیے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اپنے پچھلے بلاگ میں آصف زرداری کے حوالے سے دو واقعات بیان کئے تو کئی پڑھنے والوں نے مطالبہ کیا کہ ہدف پیپلزپارٹی اور زرداری صاحب بنے ہیں، سابق سفیر کی یاداشتوں میں میاں نواز شریف کے لئے کچھ نہیں؟ آج وہ واقعات بیان کرتا ہوں۔ کرامت اللہ غوری جہاں جہاں پاکستان کے سفیر رہے، وہاں مختلف ادوار میں مختلف حکمران آتے رہے۔ انہوں نے کمال صاف گوئی سے ان کے حوالے سے اپنے مشاہدات، تاثرات بیان کر دئیے۔ ان میں جنرل ضیا اور مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔

میاں نواز شریف کے حوالے سے دو تین دلچسپ واقعات بیان ہوئے، ایک میاں صاحب کے پہلے دور حکومت کا تھا۔ تب کرامت غوری الجزائر میں سفیر تھے۔ وہ اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب روزگار سفیر میں لکھتے ہیں کہ میاں صاحب کا جو سی وی CV تمام سفیروں کو بھیجا گیا، اس میں کہا گیا کہ میاں صاحب پاکستان کے پہلے Home Grownوزیراعظم ہیں، سفیروں نے وزارت خارجہ سے اس کا مطلب پوچھا، تسلی بخش جواب نہ ملا تو خود ہی فرض کر لیا کہ میاں صاحب چونکہ پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئے اور ان کی جو بھی تعلیم ہوئی وہ سب کی سب پاکستان کی تھی، اس لئے انہیں ہوم گرون کہا گیا۔

خیر وزیراعظم بننے کے بعد میاں نواز شریف نے برطانیہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا تو وہاں پر سفیر(ہائی کمشنر) ڈاکٹر ہمایوں خان تھے۔برطانوی وزیراعظم جان میجر نے میاں صاحب کے لئے اپنی سرکاری رہائش گاہ ٹین ڈائننگ اسٹریٹ میں لنچ کا اہتمام کیا،برطانوی پروٹوکول نے پاکستانی ہائی کمشنر اور میاں صاحب کے پروٹوکول کو بتا دیا کہ لنچ پر تقاریر نہیں ہوں گی۔اس لئے میاں صاحب کے لئے تقریرنہیں لکھی گئی۔

ہوا یوں کہ لنچ پر باتیں کرتے کرتے نجانے جان میجر کو کیا سوجھی کہ اس نے کھڑے ہو کر تین چارمنٹ کی مختصر تقریر کر ڈالی۔ مہمانوں کے لئے یہ اچنبھے کی بات تھی لیکن وہ وزیراعظم اور میزبان تھا، اس کے جی میں آئی اور اس نے تقریر کر دی۔میاں نواز شریف کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ان کے لئے تو لکھی ہوئی تقریر پڑھنا ہی مشکل کام تھا، فی البدیہہ تقریر تو بہت دور کی بات ہے۔ پاکستانی سفیر ڈاکٹر ہمایوں خان نے موقعہ کی نزاکت دیکھتے ہوئے فوری طور پر بیٹھے بیٹھے جیب سے کاغذ نکال کر چند سطریں لکھ ڈالیں تاکہ میاں صاحب کا کچھ بھرم تو قائم رہے۔

مرتے کیا نہ کرتے میاں نواز شریف نے اٹک اٹک کر وہ کلمات تو پڑھ ڈالے لیکن لنچ ختم ہوتے ہی ان کا نزلہ ڈاکٹر ہمایوں خان پر گرا۔ ارشاد شاہی ہوا کہ ہائی کمشنرناکارہ تھا، اس نے جان بوجھ کر وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھا تھا اور ان کے لئے شرمندگی کا سامان پیدا کیا۔ حکم ہوا کہ فی الفور ڈاکٹر ہمایوں خان کی سفارت ختم کی جائے۔ انگریز ایک کائیاں، اس پر پوری صورتحال الم نشرح تھی اور وہ جانتا تھا کہ ڈاکٹر ہمایوں پریہ عتاب بلاجواز نازل ہوا ہے۔ برطانوی حکومت نے ہمایوں کو کامن ویلتھ سیکریٹریٹ میں اہم عہدے پر فائز کر دیا۔

یہ بھید بعد میں کھلا کہ میاں صاحب کی ڈاکٹر ہمایوں سے ناراضی کی اصل وجہ یہ تھی کہ میاں صاحب کے ایک جگری دوست جو امریکہ میں تجارت کرتے تھے اور میاں صاحب کی فرمائش پر امریکہ سے آ کر سرکاری وفد میں شامل ہوئے تھے، ان کے لئے پاکستانی ہائی کمشنر جان میجر کے لنچ کا دعوت نامہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ڈاکٹر ہمایوں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی، مگر برطانوی وزیراعظم کا گھر کوئی رائے ونڈ کا محل تو ہے نہیں، چھوٹا سا گھر اور اس کی ڈائننگ ٹیبل پر میاں صاحب کے یار کی جگہ نہ نکل سکی۔ اس کی قیمت ڈاکٹر ہمایوں سفیر پاکستان نے ادا کی۔

دوسرا واقعہ میاں صاحب کی دوسری حکومت ختم ہونے سے صرف دو ماہ پہلے کا ہے۔ سترہ اگست 1999 کو ترکی میں ایک خوفناک زلزلہ آیا جس نے انقرہ اور استنبول کے درمیاں واقع کئی شہروں اور ایک وسیع وعریض رقبہ کو تہہ وبالا کردیا۔ نقصان بہت زیادہ تھا، اٹھارہ ہزار سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں، زخمی پچاس ہزار سے زائد تھے، پوری پوری بستیاں زمین سے مٹ گئی تھیں۔ ترکی پر اس آفت کو نازل ہوئے تیسرا دن تھا کہ اسلام آباد سے وزیرخارجہ سرتاج عزیز کا فون آیا کہ میاں نواز شریف آنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اس وقت ترک قیادت امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے، ان کے پاس میزبانی کا وقت نہیں۔ یہ بات سرتاج عزیز کے کہنے پر وزیراعظم کے سیکرٹری کو بھی بتائی گئی۔

خیر پانچ دن کے التوا کے لئے نواز شریف رضامند ہوگئے، اس کے بعد وہ استنبول پہنچ گئے۔انہوں نے ترک قیادت سے تعزیت کی اور تباہ حال جگہوں کا جائزہ بھی لیا۔ میاں نواز شریف کو استنبول کا ایک کبابی بہت پسند تھا، ہر بار جب وہ آتے، اس ہوٹل میں جا کر اس کے کباب ضرور کھاتے۔ اس بار بھی وہ ایسا کرنا چاہتے تھے، مگر انہیں یہ کہہ کر روکا گیا کہ ایسا نہ کریں کہ میزبان ترک قیادت اس کو ناپسند کرے گی۔

سب سے وزنی دلیل یہ تھی کہ جہاں وہ تعزیت کے لئے گئے ہیں، وہاں پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے پروٹوکول کے تام جھام کے ساتھ باہر نکلنا مناسب نہیں تھا۔ ترک کیا خیال کرتے کہ کیسا ندیدہ مہمان ہے ان کا، اپنی آنکھوں سے تباہی اور بربادی کے دلخراش مناظر دیکھنے کے بعد بھی اس کو کبابوں کے چٹخارے لینے کی مستی سوجھ رہی ہے۔

میاں صاحب کو یہ مشورہ بھی دیا کہ اس کبابی سے کباب سفارت خانہ میں بھی نہ منگوائے جائیں کیونکہ معززمہمان کے لئے خوردونوش کی تمام اشیا پروٹوکول کی جانچ پڑتال کئے بغیر نہیں منگوائی جا سکتی۔ ان سے البتہ وعدہ کیا گیا کہ اگلی صبح جس فلائٹ میں وہ استنبول سے انقرہ جائیں گے، اس میں ان کے پسندیدہ کباب رکھوا دئیے جائیں گے۔ ایسا ہی کیا گیا اورمیاں صاحب نے ایک گھنٹے کی فلائیٹ میں ان کبابوں سے پورا پورا انصاف کیا۔ اس کے باوجود کہ انقرہ میں ترک صدر سلیمان ڈیمرل لنچ پر ان کے میزبان تھے اور ان کا انتظار کر رہے تھے۔

میاں نواز شریف نے کباب کھانے نہ جانے کا مشورہ تسلیم کیا، اس زمانے میں ان کی شہرت یہی تھی کہ وہ افسروں کے معقول مشوروں کو رد نہیں کرتے تھے۔ نواز شریف کی حالیہ شہرت شائد اس سے مختلف بتائی جاتی ہے۔ اس شام مجھے نواز شریف کے ظرف نے متاثر کیا، البتہ ان کی ذہانت نے قطعاً نہیں، بلکہ زلزلہ سے ہونے والی تباہی کے مشاہدہ کے دوران ترک میزبانوں سے الٹے سیدھے اور بے سروپا سوالات کے باعث مجھے بار بار شرمندہ بھی کیا۔

استنبول سے روانہ ہوتے وقت ائیرپورٹ کے سفر میں دلچسپ واقعہ ہوا۔وہ میرے موبائل فون پر بار بار پاکستان میں اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف سے بات کرتے رہے۔ وہ میاں اظہر کی وجہ سے پریشان تھے جو مسلم لیگ کی صفو ں میں ان کے لئے چیلنج پیدا کر رہے تھے۔ ان کا شہباز شریف سے مکالمہ چل رہا تھا، موضوع یہ تھا کہ اگلی صبح کے اخبارات کی شہ سرخی کیا ہونی چاہیے میاں اظہر کی مذمت میں۔ جب میاں نوا ز شریف اپنے چھوٹے بھائی کو ہدایات دے چکے تو مجھ سے مخاطب ہوئے اور پوچھا، سفیر صاحب میں ٹھیک کہہ رہا تھا ناں؟

میں نے ان کی بات پر صاد کرتے ہوئے کہا،”میاں اظہر تو لیگ کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں شامل تھالی کے بینگنوں کے بارے میں قائداعظم کا ارشاد تھا، وہ لوگ قائد کی جیب کے کھوٹے سکے تھے۔“ کھوٹے سکے کی اصطلاح پر میاں نواز شریف اچھل پڑے، کہنے لگے آپ نے کیا پتے کی بات کی ہے۔ فوری میرا موبائل لے کرشہباز شریف کو ہدایات دینی شروع کر دیں کہ میاں اظہر کو اخبارات میں کیسے مطعون کیا جائے اور پھر ٹیپ کی بند کی طرح فرمایا، ”دیکھو شہباز اخبارات کی سب سے بڑی سرخی یہی ہونی چاہیے کہ میاں اظہر کھوٹے سکے ہیں مسلم لیگ کی جیب میں۔“

اس کھوٹے سکوں کی اصطلاح کو میاں صاحب ائیرپورٹ پہنچنے تک دہراتے رہے اور سر دھنتے رہے، اسی سرمستی میں انہوں نے جہاز کے روانہ ہوتے ہی اپنے محبوب کبابی کے کبابوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا۔ وہ کھاتے رہے اور میں ان کی بسیارخوری پر عش عش کرتا رہا۔“

Related Posts