پی ایس ایل سے کیا نئی باتیں پتہ چلیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ایس ایل سے کیا نئی باتیں پتہ چلیں؟
پی ایس ایل سے کیا نئی باتیں پتہ چلیں؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پی ایس ایل 7 چل رہا ہے، پہلے مرحلے میں ٹیموں نے ابتدائی دو سے تین میچز کھیل لئے ہیں، چند دنوں میں ٹورنامنٹ کا پہلا حصہ مکمل ہوجائے گا اور پھر باقی نصف پی ایس ایل لاہور میں کھیلا جائے گا۔ اس وقت تک ملتان سلطان، لاہور قلندر دونوں سب سے بہتر اور مضبوط ٹیمیں لگ رہی ہیں، پشاور زلمی میں بھی کرنٹ ہے اور وہاں اولڈ از گولڈ والا معاملہ چل رہا ہے، شعیب ملک اور وہاب ریاض پرفارم کر رہے ہیں۔

اسلام آباد یونائٹیڈ نے اپنے پہلے میچ میں جیسی تباہ کن کارکردگی دکھائی اس سے باقی ٹیمیں فکرمند ہوگئی ہوں گی۔ سب سے کمزور کراچی کنگ لگی جو اپنے پہلے تینوں میچز ہار چکی ہے، کم بیک کی کوشش تو وہ کرے گی، مگر اب اسے سو فی صد سے زیادہ کارکردگی دکھانا پڑے گی۔ کوئٹہ کی کارکردگی ملی جلی ہے۔ خیر ابھی تو بہت کچھ باقی ہے، ٹیمیں کم بیک کر لیتی ہیں اور جہاں چھ سات میچز باقی ہوں، وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

پی ایس ایل تو ابھی دو تین ہفتے چلے گا، اس پر بات کرتے رہیں گے۔ میں یہ سوچ رہا تھاکہ پی ایس ایل کے ان تمام سیزنز میں کئی دلچسپ باتوں کا اندازہ ہوا۔ بعض پہلے سے قائم کردہ نتائج غلط نکلے اور چند ایک نئی تھیوریز کا پتہ چلا۔ یہ ہمیں پی ایس ایل سے پتہ چلا کہ بڑے کوچ حضرات ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں، وہ بہت بار اپنی پسند پر خواہ مخواہ اڑے رہتے ہیں اور غلطی سدھارنے میں کئی سال لگا دیتے ہیں۔

عاقب جاوید بڑے کھلاڑی اور باقاعدہ پروفیشنل کوچ ہیں، بین الاقوامی سطح پر کوچنگ کر چکے، لاہور قلندر کے شروع سے وہ روح رواں ہیں، نہ صرف ہیڈ کوچ بلکہ ان کے ہائی پرفارمنگ سینٹر کے حوالے سے سب منصوبہ بندی وہ کرتے رہے۔ عاقب جاوید نے قلندرز کے حوالے سے بعض عجیب وغریب فیصلے کئے اور ان پر اڑے بھی رہے۔ جیسے پچھلے دو تین سیزنز میں لاہورقلندر کا کپتان وہ کھلاڑی تھا جو آج تک ایک بھی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلا۔

سہیل اختر کو انہوں نے کپتان بنایا اور وہ محمد حفیظ، فخرزماں اور قومی ٹیم کے کئی دیگرکھلاڑیوں کی قیادت کر رہے تھے۔ ایسا کھلاڑی جسے قومی سطح کی کسی بھی کیٹیگری میں شامل کرنے کے قابل نہ سمجھا گیا ہو، اسے آخر کیوں ٹیم کی قیادت سونپی جائے؟ ایسا کپتان اعتماد سے بڑے فیصلے کیسے کر سکتا ہے؟ لاہور قلندر کی مینجمنٹ اور ان کے ہیڈ کوچ اپنے اس فیصلے پر اڑے رہے۔

اس بار البتہ سہیل اختر کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو کپتان بنایا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب ٹیم میں سہیل اختر کی جگہ ہی نہیں بن رہی۔ پہلے بھی اگر وہ کپتان نہ ہوتے تو ٹیم سے باہر ہوجاتے۔ اس بار شاہین شاہ آفریدی کو کپتان بنا کر بھی ایک جوا ہی کھیلا گیا ہے۔ شاہین ابھی نوجوان ہیں، انہیں اتنا تجربہ حاصل نہیں کہ مشکل وقت میں دانش مندی سے فیصلے کر سکیں۔ڈومیسٹک سطح پر انہوں نے کبھی کپتانی نہیں کی، حتیٰ کہ انڈر نائنٹین میں بھی نہیں۔

نوجوان فاسٹ باؤلر پر بہت زیادہ دباؤ ڈال دیا گیا ہے، ممکن ہے اپنے جارحانہ انداز کی بنا پر وہ کلک کر جائیں کہ ٹی ٹوئنٹی بنیادی طور پر جارحیت کا کھیل ہی ہے۔ شاہین شاہ کے ہونے والے سسر اور ان کے آئیڈیل شاہد آفریدی نے ویسے ابھی کپتانی نہ لینے کا مشورہ دیا تھا، شاہین شاہ نے البتہ یہ تاج پہن لیا۔ دیکھیں کیا بنتا ہے؟

ایسے ہی فیصلے کراچی کنگ کرتی رہی ہے۔ عماد وسیم ان کے کئی سال کپتان رہے ہیں، مگر پچھلی بار بابر اعظم کو یہ ذمہ داری سونپی جا سکتی تھی کیونکہ وہ قومی ٹیم کے کپتان بن چکے تھے۔ کراچی کنگ نے عماد ہی کو ترجیح دی اور بابر منکسرمزاج ہونے کے ناتے خاموشی سے بطور عام کھلاڑی کھیلتے رہے بلکہ اپنی ٹیم کے لئے پرفارم بھی کیا۔ افسوس اس بار بابراعظم کپتان ہیں تو ٹیم اتنی بری شکل میں ہے، کمبی نیشن بن نہیں پا رہا، نہایت کمزور باؤلنگ لائن اور اتنی ہی کمزور مڈل آرڈر۔ اس وقت تو لگتا ہے بابر اعظم دباؤ تلے دبے ہیں۔

کراچی کنگ میں یہ بھی عجیب بات دیکھی کہ اتنے بڑے کھلاڑی ان کی کوچنگ ٹیم میں ہیں، مالکان خود کرکٹ لور ہیں، اس کے باوجود کپتان کو غلط فیصلے کرنے سے کوئی نہیں روک پایا۔ عماد وسیم نے بطور کپتان اپنے ایک اچھے سپنر عمر خان کو تباہ کیا۔ عمر خان جب اپنی باؤلنگ سے بڑے بڑے کھلاڑی آؤٹ کر رہا تھا، تب عماد نے ایک دو میچز میں اسے کھلا کر ایک اوور بھی نہ دیا۔ یہی رویہ عماد وسیم کامحمد رضوان کے ساتھ تھا۔ رضوان قومی ٹیم کا وکٹ کیپر بن چکا تھا، مگر عماد نے اسے کھلانے سے گریز کیا۔ کراچی کنگ کی مینجمنٹ کے بلنڈر کی وجہ سے رضوان کو ریلیز کیا گیا، ملتان سلطان نے اسے پک کیا اور وہاں اس نے غیر معمولی کھیل دکھا کر ٹیم کو چیمپین بنوا دیا۔

ایک اور چیز مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ڈومیسٹک ٹورنامنٹس میں کئی نوجوان کھلاڑی بہت اچھا کھیلتے اور میچ جتواتے ہیں، انہیں پی ایس ایل میں شامل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ڈومیسٹک سرکٹ میں بہت اچھی پاورہٹنگ کرنے والے کئی نوجوان کھلاڑی شامل نہیں کئے جاتے اور بعد میں انہی کمزوریوں کی بنا پر ٹیمیں میچ ہارجاتی ہیں۔ اس بار شکر ہے لاہور قلندر نے کامران غلام کو شامل کیا، جس نے ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں بہت اچھا پرفارم کیا، اس کے باوجود اسی ٹورنامنٹ میں پرفارم کرنے والے تین چاردیگر نوجوان کھلاڑی منتخب نہیں کئے گئے، انہیں آسانی سے شامل کر کے اپنی کمزوریاں دور کی جا سکتی تھیں۔

یہ بھی پی ایس ایل میں دیکھا کہ بعض اوقات بہت بڑے نام بری طرح ناکام ہوتے ہیں۔ ابتدائی سیزنز میں کراچی کنگ اپنے بھاری بھرکم سکواڈ اور بڑے کھلاڑیوں کے باوجود بہت بری طرح ہارتی رہی، کوئٹہ کی ٹیم نسبتاً کمزور اور کم مہنگی تھی، مگر اس کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ کوئٹہ کو یہ فائدہ بھی رہا کہ بعض ریٹائر کھلاڑی ان کی جانب سے کھیلتے ہوئے غیر معمولی پرفارم کرتے رہے۔

یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ جہاں ایک طرف لاہور قلندر کی ٹیم ہے جس نے اپنا ہائی پرفارمنس سنٹر بنایا اور ہر سال وہ مختلف ٹرائلز کے ذریعے نوجوان ٹیلنٹ تلاش کرتے اور انہیں گروم کرتے ہیں، باہر بھجواکر انٹرنیشنل سطح کا تجربہ بھی دلواتے ہیں۔ اس کا انہیں فائدہ بھی ہوا۔اس کے برعکس کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد اور ملتان کی پانچوں ٹیمیں کچھ بھی نہیں کرتیں۔ سال بھر وہ خواب خرگوش کے مزے لوٹتی رہتی ہیں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ آپ کو بھی ینگ ٹیلنٹ کو تلاش کرنا، گروم کرنا چاہیے۔ نوجوان کھلاڑی کی کوچنگ کے لئے کچھ کریں تاکہ مقامی کرکٹ کو فائدہ ہوسکے۔ پی سی بی نے کبھی انہیں کچھ کہا اور نہ ہی ان ٹیموں کے مالکان کا اس اخلاقی ذمہ داری کا احساس ہوا۔

پی ایس ایل کے مختلف سیزنز میں ہم نے دیکھا کہ بعض ٹیمیں جیت کے لئے منظم پلاننگ کے بجائے اٹکل پچو کام چلانے کی کوشش کرتی ہیں۔کئی بار تو وہ کسی مخصوص کھلاڑی یا دو تین کھلاڑیوں پر اتنا انحصار کر لیتی ہیں کہ اگر وہ ان فٹ ہوجائے تو ٹیم میچ ہی ہار جائے۔ اسلام آباد جیسے اپنے اوپنرز کے حوالے سے ہمیشہ جوا کھیلتی ہے۔ اس کے اوپنر کلک کر جائیں تو ٹیم اچھا کھیل جاتی ہے اور پچھلے برس رونکی نہیں تھا تو ٹیم ہی بیٹھ گئی۔

اچھے سپنرز مختلف ٹیموں کو میچز جتواتے ہیں، خاص کر لیگ سپنرز پی ایس ایل میں کرشمہ سازی کرتے رہے ہیں۔ سنیل نارائن نے بہت اچھا پرفارم کیا، عمران طاہر عرصے سے میچز جتوا رہے ہیں، شاداب خان پی ایس ایل ہی سے ابھرے اور قومی ٹیم کا حصہ بنے، محمد نواز تو بڑے تسلسل سے کھیلنے والے سپن آل راؤنڈر ہیں۔ نیپال کے مشکل نام والے لیگ سپنر نے بہت سے مخالف کھلاڑیوں کو پریشان کیا تھا۔

راشد خان پچھلے سال بھی قلندر کے لئے مفید ثابت ہوئے، اگرچہ کورونا کے باعث تعطل آ گیا، اس بار بھی راشد قلندر کے مین باؤلر ہیں۔ سپنرز کی اس قدر اہمیت کے باوجود ٹیموں کی مینجمنٹ اپنا مقامی سپن اٹیک تیار کرنے کی زحمت نہیں کرتی۔ لاہور قلندر البتہ استثنا ہے۔ مقامی سرکٹ سے اگر اچھے ٹیلنٹڈ کھلاڑی لئے جائیں یا ینگ ٹیلنٹ سے کوئی کرشمہ ساز کھلاڑی دریافت ہو تو اس کا تمام تر فائدہ اس فرنچائز کو ہوگا۔ ہمیشہ خسارے میں جانے کا رونا رونے والی فرنچائز ٹیمیں اپنے حقوق کی باتیں تو کرتی ہیں، اپنے فرائض کب نبھائیں گی؟

Related Posts