فیصلے میں کیا کچھ موجود ہے، کس کی جیت، کس کی ہار ہوئی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے چند مرکزی نکات سمجھ لینے چاہئیں۔

یہ صرف سوموٹو نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے دو تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن نوے روز کے اندر نہ ہونے کے خدشہ سے اس کیس کا سوموٹو نوٹس لیا تھا، تاہم یہ صرف سوموٹو نہیں۔ سپریم کورٹ میں دو آئینی درخواستیں بھی آئیں، ایک پنجاب اسمبلی اور کے پی اسمبلی کے سپیکر صاحبان کی جانب سے آئی اور یاد رہے کہ سپیکر آئینی طور پر کسی بھی اسمبلی کا کسٹوڈین یعنی محافظ سمجھا جاتا ہے، اس کا عدالت میں جانا ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے تب صدر شعیب شاہین نے دائر کی تھی۔فیصلے میں سوموٹو اور دو پٹیشنزیعنی تین معاملات کو ایک ساتھ نمٹایا گیا ہے۔
یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کیا ہے۔ فیصلہ اکثریتی آیا یعنی تین دو کے تناسب سے۔ تین جج صاحبان ،چیف جسٹس عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر نے نوے روز کے اندر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرانے کی ہدایت جاری کی ہے، جبکہ دو جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی فیصلہ لکھا ہے۔

اختلافی فیصلہ کس نکتے پر ہے؟
جن دو جج صاحبان نے اختلافی فیصلہ لکھا ہے، انہوں نے بھی نوے روز کے اندر الیکشن کرانے یا نہ کرانے کے حوالے سے کوئی رائے نہیں دی، درحقیقت انہوں نے اس نکتہ کو ٹچ ہی نہیں کیا اور صرف اس پوائنٹ پر رائے دی ہے کہ سپریم کورٹ کو اس کیس میں سوموٹو نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا،یہ بھی کہا کہ چونکہ لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹس میں یہ معاملہ زیرسماعت تھا، اس لئے بھی سپریم کورٹ کو اس پر سوموٹونوٹس نہیں لینا چاہیے، ان دونوں جج صاحبان نے مذکورہ ہائی کورٹ کو یہ ہدایت دی کہ تین دنوں میں اس کیس کا فیصلہ سنائیں۔

فیصلہ تین دو کا ہے یا چار تین کا؟
عدالتی روایت کے مطابق اکثریتی فیصلہ ہی تصور ہوتا ہے، اسے ہی مانا جاتا ہے اور اس کا حوالہ ہی دیا جاتا ہے۔ اختلافی فیصلے صرف ریکارڈ کے لئے ہوتے ہیں یا قانون کے طلبہ کے مطالعہ کے لئے ۔مختلف کیسز میں ان کا حوالہ بھی نہیں دیا جاتا۔اس لئے اس کیس میں اکثریتی فیصلہ ہی اہم اور فیصلہ کن ہوگا، جسے چیف جسٹس عطا محمد بندیال نے لکھا ہے اور جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر نے اس کی تائید کی ہے۔

وزیرقانون کا عجیب وغریب استدلال
اٹارنی جنرل نے اپنی ذاتی حیثیت میں اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے حکومتی سطح پر یہ موقف لیا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے پابند ہیں، تاہم ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دراصل چار تین سے ہوا ہے۔ انہوں نے اپنا حساب کتاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جن دو ججوں نے بنچ چھوڑتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا تھا ، ان کی رائے کے ساتھ دو جج صاحبان منصور علی شاہ اور جمال مندوخیل نے اتفاق کیا ہے تو یہ چار لوگوں کی رائے بن گئی یوں یہ چار تین کا تناسب بن گیا۔

اکثریتی فیصلہ کس کا ہے؟

اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کا دعویٰ ہر لحاظ سے غلط اورنامناسب بلکہ نہایت غیر منطقی ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو نورکنی بنچ سے دو نہیں چار جج صاحبان الگ ہوئے تھے،دو پر چونکہ پی ڈی ایم والوں نے اعتراض کئے تھے، اس لئے وہ الگ ہوئے جبکہ باقی دو ججوں اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس کے سوموٹو پر اعتراض کیا تھا اور اپنا اختلاف ظاہر کرتے ہوئے بنچ سے الگ ہوئے تھے۔
دونوں جج صاحبا ن اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ نے کیس کی مکمل سماعت کی ہی نہیں۔ ان کے الگ ہو جانے کے بعد پانچ رکنی بنچ نے دو دن تک کیس کی سماعت کی، مختلف فریقین نے تفصیلی دلائل دئیے۔ صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر کے وکیل نے اپنا موقف دیا، صدر کے وکیل نے اپنی رائے دی جبکہ بارکونسلز کو بھی سنا گیا۔ ان دو دنوں میں کیس کی مکمل سماعت ہوئی، بہت سے پوائنٹ اٹھائے گئے، مختلف وکلا حضرات نے اپنے اپنے دلائل دئیے۔
یہ سب کچھ پانچ رکنی بنچ نے سنا ، پہلے والے دو جج صاحبان تو اس بنچ سے الگ ہوچکے تھے۔ اس لئے ان دو ججوں کی رائے کو اس کیس کی ججمنٹ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ انہوں نے تو کیس مکمل سنا ہی نہیں، وکلا کا موقف ہی نہیں لیا تو کسی کو سنے بغیر وہ اپنا فیصلہ کیسے سنا سکتے ہیں؟ اس لئے یہ کہنا بالکل غلط اور نامناسب بلکہ ایک طرح کی تہمت ہے۔

”آرڈر آف دی کورٹ“ کس نے لکھا؟
دوسری دلیل یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا ”آرڈر آف دی کورٹ“یعنی آفیشل فیصلہ چیف جسٹس نے لکھا ہے ، اگر اکثریت جسٹس منصور علی شاہ کی طرف ہوتی تو آرڈر آف دی کورٹ وہی لکھتے ۔

اکثریتی فیصلہ
پھر فیصلے کی پہلی سطر میں ہے کہ یہ اکثریتی فیصلہ ہے تین دو کے تناسب سے۔ اگر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل کو اس بات سے اختلاف ہوتا تو وہ اپنے اختلافی فیصلے میں ذکر کرتے کہ یہ فیصلہ تین دو نہیں بلکہ چار تین سے ہے ۔ وہ یہ بھی لکھتے کہ اکثریتی فیصلہ ان لوگوں کا ہے نہ کہ چیف جسٹس صاحب کا۔ اس کے بجائے ان دونوں فاضل ججوں نے اکثریتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے صرف اپنا اختلافی فیصلہ دیا اور اس پر دستخط کر دئیے۔
یوں بات کرسٹل کلیئر ہوگئی کہ یہ اکثریتی فیصلہ تین دو کے تناسب سے ہے اور اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کا دعویٰ غلط اور بے بنیاد ہے۔

اکثریت کس کو حاصل ہے، ایک قانونی رائے

پیالی میں طوفان برپا کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ اکثریت تو جسٹس منصور اور جسٹس مندوخیل کے پاس ہے کیونکہ انھوں نے جسٹس آفریدی اور جسٹس اطہر کے ساتھ اتفاق کا اظہار کیا ہے اور یوں وہ چار ہوگئے ہیں۔اس پر کئی باتیں کی جاسکتی ہیں لیکن چند نکات فوری طور پر نوٹ کرلیں:
فاضل جج صاحبان کو کچھ اور کرنا چاہیے تھا۔ یہ کافی نہیں ہے۔
مثلاً جسٹس یحییٰ آفریدی اپنے 23 فروری کے نوٹ میں “تین درخواستوں” کو مسترد کرنے کا لکھ رہے ہیں، لیکن درخواستیں دو تھیں، ایک سو موٹو پروسیڈنگ تھی۔اسے سہو قرار دے کر نظر کردیں، تو اگلا سوال یہ ہے کہ اگلے پیرا میں وہ چیف جسٹس پر معاملہ کیوں چھوڑ دیتے ہیں کہ وہی فیصلہ کرلیں کہ انھیں بنچ میں رکھیں یا نہیں؟ اگر وہ مسترد کرچکے، تو ان کی حد تک تو بات ختم ہوگئی۔
اسے بھی نظر انداز کرلیں، تو اگلا سوال یہ ہے کہ جب وہ 23 فروری کو فارغ ہوچکے، تو 27 فروری کو پھر اسی9 رکنی بنچ میں کیسے بیٹھ کر چیف جسٹس کو کہہ رہے ہیں کہ بنچ کی تشکیلِ نو کریں؟
پھر جب بنچ کی تشکیلِ نو کی گئی، تو کیا پچھلا بنچ ختم نہیں ہوگیا؟ اس پر یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ نیا بنچ 9 رکنی ہونا چاہیے تھا یا 5 رکنی، لیکن یہ سوال نہیں بنتا کہ پچھلے بنچ کے جج صاحبان کی راے کو اب نئے بنچ کے ساتھ شامل کیا جائے یا نہیں۔
بالخصوص اگر جسٹس منصور اور جسٹس مندوخیل کا خیال یہ تھا کہ پچھلے دو ججز کا فیصلہ اب بھی فیلڈ میں ہے اور وہ اسی کے ساتھ اتفاق کررہے ہیں، تو ایک تو انھیں اس صورت میں تصریح کرنی چاہیے تھی کہ اکثریت ان کے پاس ہے، نہ کہ چیف جسٹس کے پاس، اور دوسرے (جو زیادہ اہم ہے) یہ کہ اس صورت میں “آرڈر آف دی کورٹ” انھی کو لکھنا چاہیے تھا اور اختلافی نوٹ کےلیے چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں کو موقع دینا چاہیے تھا۔
جو لوگ ان بنیادی سوالات کو نظر انداز کرکے ماہرانہ راے دے رہے ہیں، انھیں کہیے کہ قانون (اور فقہ) انگریزی محاورے کے مطابق آپ کی چائے کی پیالی نہیں۔
(ڈاکٹر محمد مشتاق، ماہر قانون، پروفیسر آف لا)

فیصلے کے مرکزی نکات
سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں پہلے تو ایک دو قانونی نکات کا پس منظر اور تفصیل بیان کی ،جیسے پاکستان کا نظام پارلیمانی ہے اور قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلیوں کے بغیر پارلیمان نہیں اور الیکشن کے بغیر پارلیمان نہیں بن سکتی ، یوں آئینی پابندی کے مطابق الیکشن کرانا کس قدر ضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔
عدالت عظمیٰ نے نوے دن کے اندر دونوں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرانے کاحکم جاری کی ہے۔ الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا فعال کردار ادا کرے۔
عدالت نے مختلف قانونی مفروضوں اور سیچوئشنز کی تفصیل بتانے کے بعد کہا کہ پنجاب میں اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس پر گورنر پنجاب نے دستخط نہیں کئے تھے، تاہم وہ الیکشن ڈیٹ دے سکتے تھے، اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو یہاں پر صدر محترم الیکشن کمیشن کی مشاورت کے ساتھ ڈیٹ دے سکتے ہیں۔ پنجاب کی حد تک سپریم کورٹ نے صدر کی جانب سے تاریخ دئیے جانے کے عمل کو قانونی اور درست قرار دیا۔ تاہم یہ کہا کہ صدر الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت کر کے اسے تھوڑا بہت بدل بھی سکتے ہیں۔
کے پی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس پر گورنر کے پی غلام علی نے دستخط کر دئیے تھے، اس لئے وہاں پر گورنر کی آئینی ذمہ داری تھی کہ وہ الیکشن کی ڈیٹ دیتے ، انہوں نے ایسا نہ کر کے اپنے آئینی اختیارات کا درست استعمال نہیں کیا۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ نوے روز میں الیکشن کرانا ہے،نوے دن میں صرف ڈیٹ کا اعلان نہیں کرنا۔
سپریم کورٹ کے مطابق کے پی کے حوالے سے صدر نے الیکشن کی ڈیٹ دے کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، ان کا وہ حکم ختم کر دیا گیا ہے۔( ویسے صدر نے اس فیصلے سے پہلے ہی ازخود اپنے اس ڈیٹ دینے کے اقدام کو واپس لے لیا تھا۔ )
سپریم کورٹ کے مطابق کے پی میںالیکشن ڈیٹ گورنر دے گا ، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے ساتھ۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو رعایت دی ہے کہ شائد وہ قانون اور آئین کو درست طریقے سے سمجھ نہیں سکے( صدر سے مشاورت میں الیکشن کمیشن شریک نہیں ہوا تھا)، تاہم اب سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی ہے وہ نہایت فعال اور متحرک کردار ادا کرتے ہوئے صدر اور گورنر کے پی سے مشاورت کے لئے تیار رہے۔
اس فیصلے کا ایک بہت اہم حصہ ، جس پر زیادہ بات نہیں ہوئی، وہ یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق کسی غیر معمولی صورتحال میں الیکشن تھوڑا بہت آگے جا سکتا ہے۔ عدالت نے اسی لئے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ اگر الیکشن شیڈول(کمپین، کاغذات داخل کرانے وغیرہ)میں جتنے دن دینا لازمی ہے، اس میں کمی کے خدشہ کے پیش نظر چند دن الیکشن ڈیٹ آگے بھی بڑھائی جا سکتی ہے، تاہم عدالت نے الفاظ استعمال کئے کہ اس تجاوز کو کم سے کم دنوں تک رکھا جائے۔ اس نکتہ پر بعض قانون دانوں نے تنقید بھی کی ہے کہ اس طرح سپریم کورٹ نے آئین سے تجاوز کا راستہ کھول دیا ہے۔ تاہم عدالت کو یہ ایک عملی مشکل ختم کرنے کا طریقہ لگا۔

Related Posts