امریکی انتخابات پر جنگ کے اثرات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پچھلے کالم میں عرض کیا تھا امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ابھی 9 ماہ باقی ہیں، مگر میدان یوں گرم ہے جیسے یہ انتخاب بس چند روز بعد ہی ہونا ہو۔ اس سلسلے میں میں عرض کیا تھا کہ اس کی داخلی اور خارجی دونوں طرح کی وجوہات ہیں۔ اور اس کالم میں تفصیل سے داخلی وجہ پر بات کی تھی۔ آج کے کالم میں ہم خارجی وجوہات کا جائزہ لیں گے۔

موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن جب اقتدار میں آئے تو افغانستان سے امریکی انخلاء کا مرحلہ سر پر تھا۔ وہ انخلاء جس کا روڈ میپ دوحہ مذاکرات میں طے پایا تھا۔ جو بائیڈن کی سکیم یہ تھی کہ امریکی فوجیں تو نکل جائیں لیکن غنی حکومت برقرار رہے۔ بائیڈن نے یہ خوش فہمی اس لئے پالی کہ وہ یہ کیلکولیشن کر رہے تھے کہ افغان حکومت کے پاس دو لاکھ نفوس پر مشتمل فوج ہے۔ جبکہ طالبان کی لڑاکا فورس ایک وقت میں تیس ہزار سے زائد کبھی نہیں رہی۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ دو لاکھ کا فگر صرف کاغذوں میں ہے۔ آدھی سے زیادہ افغان فوج گھوسٹ سولجرز پر مشتمل تھی جن کا خارج میں کوئی وجود نہ تھا۔ ان کی بس تنخواہیں افغان حکومت امریکیوں سے وصول رہی تھی۔

سو نتیجہ یہ کہ ابھی امریکی انخلاء پورا ہی نہ ہوا تھا کہ کابل حکومت کے قدم طالبان نے اکھاڑ دیئے۔ اور امریکیوں کے لئے سائیگون والا منظر تاریخ نے دہرا دیا کہ سفارتخانے کی چھت سے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے فرار پر مجبور ہوئے۔ یہ جوبائیڈن کے لئے ایسی شرمندگی ہے جو ان کے پورے دور صدارت میں رائٹ ونگ میڈیا نے مسلسل تازہ رکھی ہے۔

افغانستان کی اس تاریخی شرمندگی کے چند ہی ماہ بعد جب روس نے یوکرین پر یلغار کردی تو بائیڈن نے اسے شرمندگی مٹانے کا سنہری موقع جانا۔ کوئی شک نہیں کہ اگر وہ یوکرین کو پراکسی بنا کر روس جیسی بڑی طاقت کو شکست سے دوچار کر دیتے تو لوگ افغانستان والی ہزیمت بھول جاتے۔

چنانچہ روس کو شکست فاش سے دوچار کرنے کے لئے امریکہ ہی نہیں بلکہ نیٹو بھی میدان میں کود گئی۔ مگر روس نے دو سال میں ہی ان کے اسلحہ ذخائر ان سے پھنکوا دیئے اور اب کسی کے پاس بھی یوکرین کو دینے کے لئے کوئی گولی یا گولہ موجود نہیں۔ ہم نے آپ سے دسمبر میں عرض کیا تھا کہ 2024ء کے فروری یا مارچ مہینے سے روس اپنی فوجی کارروائیوں میں شدت لے آئے گا۔ تاکہ جوبائیڈن کی انتخابی مہم کا بیڑا غرق کیا جاسکے۔ سو وہی ہوا، فروری سے صورتحال یہ ہے کہ روس کے قدم ہیں جو مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر مغرب میں کسی کو ادنٰی درجے میں بھی یہ خوش فہمی تھی کہ روس کو شکست ہوجائے گی تو اس خوش فہمی کا اب دور دور کوئی نشان نہیں رہا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اگر نیٹو ممالک کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ ہمیشہ امریکہ کی خوشامد میں آخری حد تک جاتے رہے ہیں۔ یوکرین میں بھی یہی ہوا۔ روس کے خلاف بیان بازی میں یہ بدترین درجے کی حماقتیں بھی کرچکے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھ لیجئے کہ روسی حملے کے چند ہی ماہ بعد سابق جرمن چانسلر انجلا مرکلز نے کہدیا ، منسک معاہدہ تو ہم نے روس کو دھوکہ دینے کے لئے کیا تھا، وہ تو ہم یوکرین کو پوری طرح مسلح کرنے کی مہلت حاصل کرنے کے لئے کیا تھا۔ اور یہی بات فرانس نے بھی دہرا دی۔

عالمی سیاست میں ایسا ہوتا ہے کہ بعض معاہدات کا اصل مقصد وہ نہیں ہوتا جو نظر آتا ہے۔ مگر دنیا کا کوئی بھی ملک یہ کبھی تسلیم نہیں کرتا کہ وہ اس معاہدے میں مخلص نہیں تھا، اس کا اصل مقصد اس معاہدے سے کچھ اور تھا۔ سوال یہ ہے کہ جرمنی اور فرانس کی جانب سے عہد شکنی کے ایسے فخریہ اظہار کی وجہ کیا تھی؟ ہماری نظر میں اس کی وجہ بس یہ تھی کہ انہیں یقین تھا اب روس اور ویلادیمیر پیوٹن دونوں نہیں بچیں گے۔ سو ان دونوں ممالک نے دراصل گلی غنڈوں والی حرکت کی کہ مخالف گینگ کے لیڈر کو گلی میں تنہاء گھیرا تو اس خوش فہمی میں کہ یہ تو اب مرے گا ہی، چلو اسے یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ اس کے باپ کے ساتھ ہم نے کیا کیا تھا اور اعترافات کر بیٹھتے ہیں۔ اب سوچئے وہی بندہ اگر بچ جائے تو؟

نیٹو ممالک کا حال آج کل گلی کے ان غنڈوں والا ہی ہے۔ سب کے اوسان اس بری طرح خطاء ہیں کہ نوبت اول فول تک آپہنچی ہے۔ چند ہی دن قبل فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے نیٹو ممالک کو تجویز دی کہ ہمیں یوکرین میں اپنی فوجیں اتار دینی چاہئیں۔ اجلاس میں شریک تمام ممالک گویا یہ کہہ کر دوڑ گئے ”تیرا دماغ خراب ہے؟“ اور اس کے بعد کبھی ایک تو کبھی دوسرا ملک میکرون کی تجویز سے اعلانیہ برأت کا اظہار کرکے گویا پیوٹن کو یقین دلاتا رہا کہ ”دیکھ بھائی اپن اس میں شامل نہیں“ صرف یہی نہیں بلکہ عالمی میڈیا نے بھی میکرون کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اتفاق سے میکرون کو پوری نیٹو میں دو تین ایسے ممالک مل گئے جو ان کی تجویز سے اتفاق کر گئے۔ ان میں سے ایک ملک لاتھویا بھی ہے جس کی کل ملٹری پاور ہی صرف 17 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس صورتحال میں وہ چوہا یاد آجاتا ہے جس نے پل پر سے گزرتے ہوئے ہاتھی سے کہا تھا:

”ہاتھی میاں ! یہ پل ہم دونوں کے وزن سے ہل رہا ہے”

سو فرانسیسی صدر چوہے کی ہمنوائی سے حوصلہ پاکر اپنے ”عزم“ پر اس کے باوجود قائم رہے کہ جرمن چانسلر نے بھی انہیں سخت ردعمل دیا تھا۔ اور صورتحال یہ ہوچکی کہ پوری نیٹو ہی میڈیا کے ذریعے باہم الجھی نظر آرہی ہے۔ نیٹو ممالک کے انکار پر میکرون نے یہاں تک کہہ دیا کہ ”ہمیں اپنا ڈر ختم کرنا ہوگا“ اور اگلے دن بیان دیا کہ ”ہمیں روس کے حوالے سے اپنی ریڈ لائنز ختم کرنی ہونگی“ بالآخر روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن نے وہ جواب دیا کہ میکرون کو سانپ سونگھ گیا۔ پیوٹن نے کہا

”جو ملک ریڈ لائنز ختم کرے گا ہماری طرف سے بھی اس کے ساتھ ریڈ لائن ختم ہوگی۔ ہم ریگولر ہی نہیں ایٹمی جنگ کے لئے بھی پوری طرح تیار حالت میں ہیں۔“

اس کے اگلے دن میکرون نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا

”روس کی فتح ناقابل قبول ہے۔ مگر ہم پہل نہیں کریں گے“

اگر آپ حیران ہیں کہ اس پورے منظر سے وہ امریکہ کیوں غائب ہے جو اس گینگ کا سرغنہ ہے؟ تو بے جا حیران ہیں۔ نیٹو چمچہ ممالک کے یہ اوسان اسی لئے خطاء ہیں کہ یوکرین کی یقینی شکست دیکھتے ہی امریکہ اپنی روایت کے عین مطابق کھسکنے کا عمل شروع کرچکا۔ 2008ء سے مشن یوکرین پر کام کرنے والی وکٹوریہ نولن کو بائیڈن انتظامیہ نے دفتر خارجہ سے چلتا کردیا ہے۔ جبکہ اطلاعات آرہی ہیں کہ سی آئی اے بھی روسی سرحد کے قریب واقع اپنے 12 بیسز خالی کرچکی۔

اب جو بائیڈن کو چیلنج یہ درپیش ہے کہ اگر صدارتی انتخابات کے بالکل قریب جاکر روس یوکرین کے حوالے سے اپنے اہداف حاصل کر جاتا ہے تو افغانستان کے بعد اس دوسری رسوائی کے اثرات سے وہ اپنی انتخابی مہم کو کیونکر محفوظ رکھ پائیں گے؟ مگر بائیڈن کی کل پریشانی یہی نہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے حق میں حد سے زیادہ حمایت کا جو علم بلند کیا تھا اس کے نتائج کا بھی وہ ابھی سے انتخابی مہم میں سامنا کر رہے ہیں۔ مثلاً مشی گن ایسی امریکی ریاست ہے جہاں سے 2020ء میں بائیڈن دو لاکھ ووٹوں کی اکثریت لے کر جیتے تھے۔ اور اس ریاست میں عرب ووٹرز بڑی تعداد میں ہیں جو ابھی سے یہ مہم چلا رہے ہیں کہ اگر ڈیموکریٹس کے امیدوار بائیڈن ہوئے تو انہیں ووٹ نہ دیئے جائیں۔ اسی طرح دیگر ریاستوں میں بھی مسلمان بائیڈن کے خلاف باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو بائیڈن یوکرین سے کھسکنے کا عمل شروع کرچکے تاکہ یوکرین کی شکست کے اثر سے خود کو بچا سکیں مگر یہ ہو نہیں پائے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس شکست کے اثرات سے بچنے کے لئے مغربی میڈیا کو حکم جاری کردیا جائے گا کہ یوکرین کی خبروں کا مکمل بلیک آؤٹ رکھا جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان پر کونسی ٹیپ چپکائی جائے گی؟ ٹرمپ تو یوکرین جنگ کے پہلے روز سے خلاف تھے۔ وہ اس شکست کو بائیڈن کے خلاف ایک اہم کارڈ کے طور پر استعمال کریں گے۔ اور صرف یوکرین ہی نہیں بلکہ وہ بات افغانستان سے شروع کرکے یوکرین پر ختم کریں گے۔ یہی وہ پوری صورتحال ہے جس کی وجہ سے امریکی صدارتی انتخابات کا محاذ وقت سے بہت پہلے بہت ہی گرم چل رہا ہے۔

Related Posts