اخلاق باختہ چڑیلوں کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستانی پروڈیوسر عاصم عباسی کی تخلیق چڑیلز (چڑیلیں) پاکستان میں ناپسندیدہ قرار دے دی گئی کیونکہ اسے بے حد فحش اور حیا سوز سمجھا جا رہا ہے۔

زیڈ ای ای 5 پر جاری اِس تخلیق کو پاکستانی ناظرین کیلئے اُس وقت بند کر دیا گیا جب جنسی حقائق سے متعلق ایک مکالمہ وائرل ہوا جس کے خلاف پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو متعدد شکایات موصول ہوئیں اور بھارتی پلیٹ فارم کو پی ٹی اے نے پابندی کیلئے درخواست کردی۔ کچھ دباؤ کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا، تاہم یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب چڑیلز پر تنقید کی گئی ہو۔ ابتدائی ریلیز کے بعد سے ہی تخلیق کاروں اور اداکاروں کو حیا سوز مناظر دِکھانے پر زبردست منفی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا، پھر بھی یہ کہانیاں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حقائق سے بے حد کم فاصلہ رکھتی ہیں۔

عاصم عباسی نامی پروڈیوسر اطمینان کیلئے حقیقت سے قریب تر عکس بندی کرتے ہیں اور ہمیں معاشرے کے ان تاریک پہلوؤں کا سامنا کرنے پر مجبور کرتے ہیں جنہیں ہم جان بوجھ کر نظر انداز کرنا چاہتے ہیں۔ چڑیلوں کی ٹیم مردوں کی دبائی گئی خواتین پر مشتمل ہے۔ شادی کے نام پر عصمت دری، رہنمائی کے نام پر مارپیٹ، دیکھ بھال کے نام پر طنز اور ہر چیز کی قربانی دینے کے بعد کچھ حاصل نہ کرکے خواتین پوری طرح مجبور ہو کر برائی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور مرد ذات کے خلاف جنگ شروع کردیتی ہیں جس سے مرد بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ یہاں معاشرے کو بدلنے کیلئے برقعے اور نقاب کا عطیہ موجود ہے۔ عباسی چہرہ ڈھانپ کر مظلومیت کی علامت کو طاقت میں بدل دیتے ہیں۔ اب جادوگرنیاں مردوں کے معاشرے میں انصاف کی حکمرانی کیلئے آزاد ہیں۔ وہ مساوات کی علمبردار ہیں، پھر بھی کہانی کے مرکزی کردار شراب اور سگریٹ نوشی کے ساتھ ساتھ قابلِ اعتراض لباس میں ملبوس نظر آتی ہیں۔

ٹیلی ویژن پر دوپٹہ پہننے والی خواتین کی رونے کی آواز سننے کے عادی ناظرین کو نئی راہ دکھائی گئی جس پر اُن کا فیصلہ آچکا کہ ایک خاتون کے ہاتھوں میں نشہ آور اشیاء اسے بے حیا ثابت کرتی ہیں، یہاں مرد بھی شراب نوشی کرتے دکھائے گئے لیکن کسی کو بھی ان کی قوم کو گمراہ کرنے کی شکایت نہ ہوئی۔ کسی بھی موقعے پر یہ چڑیلز نامی تخلیق خواتین کے طرزِ زندگی کو پسند اور خوبیوں کی حیثیت سے پیش نہیں کرتی۔ چڑیلز محض حقیقت سے حقیقت تک کا سفر نظر آتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ منشیات اور الکوحل پاکستان کے کچھ طبقات میں مردو زن دونوں استعمال کرتے ہیں۔ یہاں پروڈیوسر عباسی پوری ڈھٹائی کے ساتھ تمام ممنوعہ اشیاء کو ہچککچاہٹ کے بغیر دِکھاتے نظر آئے جبکہ حنا بیات کے واضح مکالمے نے ناظرین کو خوفزدہ کردیا۔ فنکارہ کی بدکاری پر اداکاری کے سبب شدید مذمت کی گئی لیکن ہم ان مردوں کو ایسا کوئی لیبل لگانے سے انکاری ہیں جو جنسی زیادتی کے خواہش مند ہوں یا اس کا مطالبہ کریں۔ ڈرامے میں شیری کا کردار پاکستان میں بہت سی غریب خواتین کی حقیقت بیان کرتا ہے جو زندہ رہنے کیلئے جنسی زیادتی سہنے پر مجبور نظر  آتی ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا کرنے سے ہمارا معاشرہ انکاری نظر آتا ہے۔

پاکستان دُنیا بھر میں انٹرنیٹ پر فحش مواد تلاش کرنے والے ممالک کی لسٹ میں سرِ فہرست ہے جس کے باوجود ہم چڑیلز نامی ایسے شو کو فحش قرار دیتے ہیں جو عریانی نہیں دِکھاتا۔ تبدیلی سچائی کا انکار کرکے جینے سے نہیں آتی۔ اکثر جنسی زیادتی کا شکار بنانے کے بعد ایک معصوم بچے کی لاش کچرے کے ڈھیر میں پھینک دی جاتی ہے۔ خواتین کو گھر کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات پر بھی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواجہ سراؤں کو عام ملازمت کرنے اور دکانوں میں داخلے سے روک دیا جاتا ہے۔منشیات کے عادی لوگ گھر کی خواتین کو نشے کیلئے نیلام کردیتے ہیں۔ یہ وہ غلطیاں ہیں جنہیں فحش قرار دی گئی چڑیلز نامی تخلیق درست کرنا چاہتی ہے۔ چڑیلوں کا پیغام خواتین کے جسموں، دماغوں اور زندگیوں کو مردوں کی غلامی سے آزاد کرنا ہے۔ ایک بار ارسطو نے کہا تھا کہ کسی تعلیم یافتہ ذہن کی نشانی یہ ہے کہ وہ کسی بھی خیال کو قبول کیے بغیر اسے اندر ضرور آنے دیتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک چڑیلز نامی ڈرامے کی مرکزی خواتین کا طرزِ حیات قابلِ اعتراض ہوسکتا ہے لیکن اِس پر خواتین کے جسم کو مرد ذات کی خواہشات کی تسکین کیلئے ایک چیز سمجھے بغیر اُس تبدیلی کی کوشش کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا جس کیلئے چڑیلز کوشش کر رہی ہیں۔ معاشرے کے تاریک حقائق کا سامنا کرنے سے ہی ہم ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں جو معاشرے کی خرابی کا باعث ہیں اور ڈراما ایسا کرنے کیلئے ایک مضبوط ہتھیارثابت ہوا ہے۔ 

 

Related Posts