نیکی اور بدی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حضور نبئ کریم ﷺ کی مشہورومعروف حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ہماری امت میں ایسے لوگوں کے تین طبقات یا گروہ ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ جہنم میں جلائے گا۔ ان میں سے ایک طبقہ علم رکھنے والا ہوگا۔

مثال کے طور پر ایسا شخص جو اسلام کے بارے میں واضح علم رکھتا ہوگا اور اس کے اہم نکات کو اچھی طرح سمجھتا ہوگا۔ پھر اسے ایک پلیٹ فارم ملا ہوگا جس کے تحت وہ اپنا علم دوسروں تک منتقل کرسکے۔ اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہوں گے جو قرآنِ پاک کو پڑھنے اور اس کی قرات کرنے کا علم رکھتے ہوں گے۔

انہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ انہیں بتائے گا کہ انہیں اسلام اور قرآن کا علم عطا کیا گیا تھا اور وہ دوسروں کو یہ علم سکھایا کرتے تھے۔ خاتم النبیین ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ تسلیم کریں گے کہ انہیں یہ نعمت دی گئی تھی اور وہ یہ علم رکھتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ انہوں نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ علم رکھنے والا شخص کہے گا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کیلئے علم حاصل کیا اور قرآنِ پاک کی تلاوت کی۔

تاہم فرشتے اسےآگاہ کریں گے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے کیونکہ اس نے علم صرف لوگوں کی تعریف پانے اور شہرت حاصل کرنے کیلئےحاصل کیا نہ کہ ایک خاکسار بندہ بن کر جو علم دوسروں تک منتقل کرتا اور اللہ کے پیغمبروں کی درست روایات سے لوگوں کو آگاہ کرتا جن میں حضور ﷺ بھی شامل ہیں۔ کیونکہ دنیا کی زندگی میں اس شخص کو وہ شہرت اور تعریف مل گئی جس کی اس نے تمنا کی تھی، آخرت میں اسے کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو جہنم بھیج دے گا۔

اسی حدیث میں ایک دوسری قسم کے طبقے کا ذکر بیان ہوتا ہے جو اپنی دولت صدقہ و خیرات میں دے دیتا ہے۔ حشر کے روز ایسے طبقے سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے اس دولت اور خوشحالی کا کیا کیا جس سے انہیں نوازا گیا تھا؟ دولت مند شخص کہے گا کہ یا اللہ میں نے اپنی دولت کو صرف تیری رضا کی خاطر لوگوں کو دے دیا اور صدقہ و خیرات کی۔ لیکن فرشتے بتائیں گے کہ یہ شخص بھی جھوٹ بول رہا ہے۔

اس نے دولت اس لیے لوگوں پر خرچ کی تاکہ لوگ اس کی سخاوت کی تعریف کریں اور وہ سخی مشہور ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی جہنم بھیج دے گا کیونکہ اس شخص کو بھی اس کی خواہش کے عین مطابق دنیا کی زندگی میں تمام تر تعریف و توصیف اور وہ بہترین سلوک حاصل ہوچکا ہوگا جو لوگ اسے سخی سمجھ کر اس کے ساتھ کر رہے تھے۔

تیسری قسم کے لوگ وہ شہید ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کیلئے لڑی جانے والی جنگ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس طبقے کے ایک شخص سے بھی اسی طرح کا سوال کیا جائے گا کہ اسے کمزور اور ضرورت مند کی حفاظت کیلئے جس جسمانی طاقت سے نوازا گیا تھا، اس نے اس طاقت کا کیا استعمال کیا؟ وہ کہے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتا رہا، یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔

تاہم فرشتے کہیں گے کہ اس شخص نے بھی جھوٹ بولا اور وہ لڑتے لڑتے شہید اس لیے ہوگیا تاکہ لوگ اس کا نام ایک بہادر سپاہی اور جانثار انسان کے طور پر یاد رکھیں۔ دنیا کی زندگی میں وہ شخص اپنا انعام حاصل کرچکا ہوگا، اس لیے اللہ تعالیٰ اسے بھی جہنم کی طرف روانہ فرمائے گا۔

ہم میں سے زیادہ تر لوگ عظیم علمائے دین، مشہور سماجی کارکنان اور رہنماؤں یا بہادر سپاہیوں کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے، لیکن اس حدیث میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ وہ تین طبقات جن کا ذکر کیا گیا، اپنے اعمال پر بھروسہ کر رہے تھے جبکہ نیکی یا بدی انسان کو جنت یا جہنم تک نہیں پہنچاتی کیونکہ انسان کے اعمال کا دارومدار ایک اور حدیث کے مطابق نیت پر ہوتا ہے۔ وہ تمام لوگ ایک غیر مخلصانہ نیت سے نیک اعمال کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے سچے جذبے سے نہیں، اس لیے انہیں جہنم کی سزا ملے گی۔

ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ وہ خوبیاں بتاتے ہیں جن کے تحت کسی بھی شخص کو دنیا اور آخرت کی کامیابی عطا ہوتی ہے۔ جو خصوصیات بتائی گئیں، ان کے مطابق ایک شخص کی مثال دی گئی جو غنی ہے اور اس کا دل اور روح پوری طرح مطمئن ہیں، دوسرا متقی ہے یعنی ہم اسے پرہیز گار سمجھ سکتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ تیسرا خفی ہے جو کسی بھی قسم کی شہرت نہیں چاہتا، نہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، جبکہ یہ آخری خوبی ہمارے نبی ﷺ کی ذات میں بھی پائی جاتی ہے۔

اب ہم ان گناہوں کی بات کر لیں جو انسان کو جنت کی طرف لے جاتے ہیں۔

پیارے نبی ﷺ نے ایک شخص کا قصہ بیان فرمایا جو 99 قتل کرچکا تھا۔ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار مگر کم علم رکھنے والے مذہبی رہنما کے پاس جاتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے کہ کیا 99 قتل کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ میرے گناہ معاف فرما دے گا؟ وہ رہنما کہتا ہے کہ 99 قتل جیسے بڑے گناہ کیلئے اللہ کبھی اسے معاف نہیں کرے گا جس پر وہ شخص طیش میں آ کر اس کو بھی قتل کردیتا ہے اور اب قتل 100 ہوجاتے ہیں۔

ایک روز وہ شخص ایک حقیقی عالمِ دین کے پاس جا پہنچتا ہے اور یہی صورتحال اس کے سامنے بھی رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے 100 قتل کیے ہیں، کیا اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے گا؟ کیا میں واپس اللہ کی طرف جا سکتا ہوں؟ اس کی قربت حاصل کرسکتا ہوں؟ وہ عالمِ دین کہتا ہے کہ ہاں، صرف سچے دل سے تمہیں توبہ کرنی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت تمہیں تلاش کر لے گی۔ عالمِ دین 100 قتل کرنے والے شخص کو یہ صائب مشورہ بھی دیتا ہے کہ جس علاقے میں رہتے ہو، اسے چھوڑ دو، کیونکہ تم یہاں قاتل مشہور ہوچکے ہو۔ اب وہ شخص خوش ہو کر اپنی نئی منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔

نئے علاقے کی طرف جاتے ہوئے وہ شخص راستے میں ہی انتقال کرجاتا ہے۔ چونکہ نئے علاقے کی طرف توبہ کرنے کے ارادے سے جاتے ہوئے اس کا انتقال ہوتا ہے، اور انتقال کے وقت نئے گاؤں سے اس کا فاصلہ کم اور پرانے سے زیادہ ہوچکا ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے۔

جب ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہیم اجمعین کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ بہترین لوگ جنہوں نے اسلام کو دنیا بھر میں پھیلا دیا، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے لوگ تھے جو پہلے سنگدل مشہور تھے اور بعد ازاں انہوں نے توبہ کرکے اپنے عقیدے اور طرزِ عمل کی اصلاح فرمائی۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے ایسے لوگوں نے اپنے ہی نفس کے خلاف جہاد کیا۔ انہیں یہ علم ہوا کہ ان کا راستہ غلط تھا تو انہوں نے نہ صرف توبہ کی بلکہ اپنے راستے کو درست بھی کیا اور اپنے اعمال کو اس بلندی تک لے گئے جہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے بلند مقام یعنی صحابہ کرام کا درجہ عطا فرمایا۔

ضروری بات یہ بھی ہے کہ ہم نفس پر قابو پائیں اور اگر یہ سمجھ لیں کہ ہم غلط ہیں تو خود کو تبدیل بھی کریں۔ تبدیلی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم اپنی رہائش، نوکری یا وہ دوست چھوڑ دیں جو بدکاری کی ترغیب دیتے ہوں اور حرام سے ہجرت کرکے حلال کی طرف آئیں۔ اپنی برے افعال کو اچھے اعمال میں اور برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیں۔

صحیح مسلم کی روایت کردہ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ حضور ﷺ نے 2 اشخاص کی مثال بیان فرمائی جو گزشتہ قوموں میں ہوگزرے تھے لیکن ان کے درمیان کوئی خون کا یا حقیقی بھائیوں جیسا رشتہ نہیں تھا تاہم وہ قریبی ساتھی تھے۔ ایک شخص دل سے اور ظاہری افعال کے لحاظ سے بھی نیک تھا جبکہ دوسرا شخص اس اعتبار سے زیادہ اچھا نظر نہیں آتا تھا۔

نیک شخص اپنے ساتھی کو ہمیشہ بتایا کرتا تھا کہ وہ اپنے اعمال کے باعث جہنم میں چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اسے کبھی جنت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا اگر اس نے اپنا راستہ تبدیل نہ کیا۔ وہ غیر نیک شخص اپنے نیکو کار ساتھی کی نصیحت کے ردِ عمل میں ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کرم سے اب بھی امیدیں وابستہ ہیں اور میں وہ بہترین افعال سرانجام دے رہا ہوں اور وہ نیکیاں کر رہا ہوں جس حد تک مجھ سے ہوسکتی ہیں۔

بالآخر دونوں افراد پر موت طاری ہوگئی۔ حدیث کے مطابق قیامت کے روز ان دونوں افراد کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ پہلے نیکو کار شخص سے کلام فرمائے گا اور اس سے پوچھے گا کہ کیا تم نے اپنے دوست سے یہ کہا تھا کہ میں اسے جہنم بھیج دوں گا اور جنت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دوں گا؟ وہ شخص تصدیق کرے گا کہ یا اللہ، یہ سچ ہے۔

میں نے ایسا ہی کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمائے گا کہ کیا میں نے تمہیں یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تھا کہ کسے جنت میں جانے کی اجازت دی جائے اور کسے جہنم واصل کیا جائے؟ یا تمہیں یہ قوت عطا کی گئی تھی کہ تم مستقبل میں دیکھ سکتے کہ آخرت میں اس شخص کے ساتھ کیا ہوگا؟ تمہیں جرات کیسے ہوئی کہ اللہ کی طرف سے بولو اور اپنے دوست کے دل میں مایوسی پیدا کرو؟

پھر اللہ تعالیٰ اس نیکو کار سے فرمائے گا کہ وہ اللہ کے رحم و کرم کا گواہ بن جائے کیونکہ اس کے دوست کو بھی جنت میں ہی بھیجا جارہا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جائے گا کیونکہ جو شخص نیک نہیں تھا، اسے آخری دم تک یہ امید رہی کہ اللہ تعالیٰ اس پر ضرور کرم فرمائے گا۔ نیک شخص کو مایوسی پھیلانے کے جرم میں جہنم بھیج دیا جائے گا۔

گناہ بھی نیکی کی طرف ایک راستہ بن سکتے ہیں اگر ہم لوگوں کو وقت دیں اور انہیں اپنی زندگیاں تبدیل کرنے کیلئے مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ اور پیغمبرِ اسلام ﷺ ہمیں شریعتِ مطہرہ، قرآن اور حدیث کے ذریعے سمجھاتے ہیں کہ صرف نیک ہونا کافی نہیں ہے بلکہ خدا کی راہ سے بھٹکے ہوئے افراد کی مدد بھی ضروری ہے تاکہ وہ بھی نیک اور متقی بن سکیں۔

Related Posts