زبانی کلامی ساتھ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مقبوضہ کشمیر ہو یا فلسطین، دونوں جانب انسانی المیے، قتل و غارت اور ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کی گئی اور کی جارہی ہے تاہم عالمی برادری کی جانب سے ایسے المیوں کے شکار افراد سے زبانی کلامی ساتھ دینے کی باتیں تو کی جاتی ہیں، ساتھ دیا نہیں جاتا۔

یہودی جمہوریہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی پر تل چکا ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے فلسطینی شہدا کی تعداد 2700سے تجاوز کر گئی جن میں 1000سے زائد بچے شامل ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے اقوامِ متحدہ کے پناہ گزین کیمپ پر بھی بمباری کی۔

مقبوضہ فلسطین کی تباہ شدہ عمارات کے ملبے سے 1000سے زائد افراد کی تلاش جاری ہے۔ مغربی کنارے سے 600فلسطینی گرفتار ہو گئے جبکہ درجنوں کو شہید کردیا گیا۔ بمباری سے شمالی غزہ کے 4ہسپتال مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔

متعدد عمارات تباہ ہوجانے کے باعث غزہ سے تعلق رکھنے والے 12 لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور غزہ کی مکمل آبادی کی بات کی جائے تو یہ 21سے 22 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں سے 40فیصد 14سال سے کم عمر یعنی بچے ہیں۔

اسرائیل نے جس بے دردی اور مکاری سے فلسطینیوں کو بمباری کا نشانہ بنایا، اسے عالمِ انسانیت کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ اسرائیلی بمباری سے متاثرہ آبادی اور عمارات کی تصاویر اور ویڈیوز منظرِ عام پر آنے سے ہر نسل و مذہب کے افراد لرز کر رہ گئے ہیں۔

نیو یارک میں خود یہودی مذہب کے ماننے والے سیکڑوں افراد اکٹھے ہوئے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ غزہ میں جاری قتل و غارت بند کرائی جائے اور کسی بھی صورت یہ قتل و غارت یہودیوں کے نام پر نہیں ہونی چاہئے۔

یہودی مذہب بھی اسی طرح الہامی ہے جیسا کہ اسلام اور مسیحیت کو الہامی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کے ماننے والوں کی کتب یعنی قرآنِ پاک، زبور اور انجیل اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمائیں جبکہ دیگر مذاہب الہامی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے۔

دوسری جانب صیہونیت ایک ایسے طبقۂ فکر کا نام ہے جو دنیا بھر کے تمام یہودیوں کیلئے ایک ریاست کا قیام چاہتا ہے جس کیلئے فلسطینیوں کی سرزمین ہتھیائی گئی جبکہ ماضی میں مہاتما گاندھی بھی یہ اقرار کرچکے ہیں فلسطین عربوں کی سرزمین ہے، اسرائیل کی نہیں۔

دنیا بھر سے یہودیوں کو لا لا کر اسرائیل میں یہودیوں کی بستیاں بسائی جارہی ہیں جس سے ہر یہودی کا متفق ہونا ضروری نہیں کیونکہ ہر ہمدرد دل رکھنے والا یہودی یہ سمجھتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین عربوں کی سرزمین ہے جس کی ملکیت پر یہودی دعوے دار نہیں ہوسکتے۔

ضروری ہے کہ عالمی برادری اسلام کے قبلۂ اوّل یعنی مسجدِ اقصیٰ سمیت دیگر مقدس مقامات پر مشتمل مقبوضہ فلسطین کی آزادی کیلئے آواز بلند کرے کیونکہ مسجدِ اقصیٰ اسلام کے ساتھ ساتھ مسیحیت اور یہودیت کے پیروکاروں کیلئے بھی مقدس ترین مقام کا درجہ رکھتی ہے اور اس کی ملکیت پر مسلمانوں کا حق تسلیم کیا جانا چاہئے۔ 

Related Posts