معافی کون مانگے گا۔۔۔؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Who will apologize?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل احمد شریف نے 9 مئی کو صرف فوج نہیں پورے پاکستان کا مقدمہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمان اور ان کے سہولت کاروں کو آئین اور قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے، جوڈیشل کمیشن کے تحت تحقیقات کیلئے تیار ہیں۔

آئی ایس پی آر کی اس پریس کانفرنس میراخیال ہے کہ اس سانحہ کے ایک سال کے بعد بھی ابھی اس کمیشن کی گنجائش باقی ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ثبوت صرف اداروں کے پاس ہی نہیں بلکہ عام لوگوں کے پاس بھی موجود ہیں مگر جوڈیشل کمیشن کی ایک سال کی تاخیر میں جو انسانی ماردھاڑ کا طوفان برپا ہوا پنجاب پولیس اور سندھ پولیس کی زیادتیوں کی جوداستانیں رقم ہوئی ان زخموں پرکون مرہم رکھے گا۔

جن لوگوں کی ہڈیوں کوتوڑا گیاکہ وہ واقعی قصوروار تھے بھی یا انہیں محض عمران خان کا ساتھ دینے کی سزا دی گئی جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل احمد شریف نے کہا کہ ہم کسی سیاسی خاص سوچ کوآگے لیکرنہیں بڑھتے، بات چیت سیاسی جماعتوں کوآپس میں زیب دیتی ہے، انتشاری ٹولہ صدق دل سے پاکستانی قوم سے معافی مانگ اس پریس کانفرنس کے رد عمل پر بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ 2014ء کے دھرنے کی انکوائری کے لیے تیار ہوں،9 مئی کے واقعات پر کیوں معافی مانگوں؟معافی تو مجھ سے مانگنی چاہیے۔

مجھے خوشی ہوگی کہ مجھے انکوائری کمیٹی میں پیش کیا جائے، 2014 کے دھرنے کے حوالے سے مجھ پر جتنے الزامات لگائے گئے سب غلط ہیں، 2013ء کا الیکشن آر اوز کا الیکشن تھا،عمران خان کا کہنا تھا کہ سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے فارم 47 کے حوالے سے بیان کے بعد وفاقی حکومت سے کیا مذاکرات ہوسکتے ہیں ۔

ایک لکھاری کی حیثیت سے فی الحال میں سمجھتاہوں کہ افواج پاکستان کے ترجمان کو باقاعدہ پریس کانفرنس کرنے کی کیا حاجت درپیش تھی ناقابل فہم ہے ۔ قائرین کرام یہ درست ہے کہ ملک میں سیاسی بحران کو دیکھتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات یا بات چیت کاراستہ نکلنا چاہیے، اور یقینی طور پر یہ وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے اصلاحات اور انتخابات کے حوالے سے اتفاق پیدا ہوسکتا ہے تاہم اس کے امکانات اس قدر واضح نہیں ہیں۔ سیاست گفت وشنید اور برداشت سے آگے بڑھتی ہے۔

پوری سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف کر کے مل بیٹھ کر فیصلے کر کے اس پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ خاص طور پر حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلے کرے مگراس طرح نہیں کہ جیسے ایک بار مریم نوازنے کہاتھا کہ جس طرح کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں اسی طرح عمران خان کے ساتھ ڈیل کرنا چاہیے۔‘ مریم نواز نے پی ٹی آئی سے متعلق نفرت انگیز انداز میں کہا تھاکہ اسے ایک عسکری اور دہشتگرد جماعت کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو مجھے بہت افسوس ہو گا۔

میرا خیال ہے یہ بات مریم صفدر صاحبہ کو اپنے والد نوازشریف کو سمجھانا ہوگی جو رانا ثنا اللہ۔ خرم دستگیر خواجہ آصف جیسے لیگی رہنماؤں کے ذریعے عمران خان کو ہر حال میں مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا، قوم اور حکمرانوں کے لیے آئینہ بن چکاہے وہ سب کچھ پہلے ہی واضح کرچکاہے کہ حقیقت کیاہے۔

مسلم لیگ(ن)کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے، اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں انتخابات جیت کر کہیں کہ انہیں رہا کردیں مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد سب سرکاری سسٹم کا حصہ بن گئے ہیں اور اس کی بنیاد فارم 47 ہے، جبکہ دوسری طرف عوامی قوت ہے، جس کی بنیاد فارم 45 ہے، اور وہ ایک قیدی 804 کے گرد گھوم رہی ہے۔

مسلم لیگ(ن)کے رہنما نے بتایا کہ ہماری جماعت کو پنجاب میں اتنا بڑا دھچکا لگا ہے، 30 سال کی سیاست 8 فروری کو ملیا میٹ ہو گئی، اگر آپ اپنے گڑھ میں اپنے گھر میں ہار جائیں اور نامعلوم افراد سے ہار جائیں، گمنام لوگوں سے ہار جائیں تو کچھ سبق سیکھنا چاہیے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔ اس قسم کی آوازیں اب مولانا فضل الرحمان اورمحموداچکزئی جیسے سیاستدان بھی برملاکہتے ہوئے نظرآرہے ہیں جبکہ ملک بھر میں عوام کی رائے کو تو ہرکوئی جانتاہے۔

علاوہ ازیں دنیابھرمیں مظاہرے بھی اس بات پرہوچکے ہیں۔ امریکا نے سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت پاکستان میں قید تمام قیدیوں کے تحفظ اور ان کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان سمیت ہر قیدی قانون کے تحت بنیادی انسانی حقوق اور تحفظ کا حقدار ہے اس پراب یہ ہی کہا جاسکتاہے کہ عمران خان کے لیے اب ملک کے اندر اور باہر دونوں جگہوں سے ہی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔

ایک تاریخی حقیقت لکھتاچلوکہ قائداعظم کی جماعت کی حکومت کے خاتمے سے قبل پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا میں پوچھتا ہوں کہ کیا بنا اس کیس کا؟ یہ واقعہ سارے فساد کا نقطہ آغازکہاجاسکتا ہے مگر پھربھی ملک چل رہاہے، پھر کیا ہوا 16 دسمبر 1971ء کے سانحہ سے ملک کا دولخت ہونا کسی کویاد نہیں ہے؟۔

مگرکیا ہوا ملک اب بھی چل رہاہے ،مدبر سیاسی رہنما خبردار کرتے رہے ہیں کہ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی پالیسی قوم اور فوج میں تصادم کا سبب بنے گی۔ اور پھر ایساہی ہوا۔ خیرمشرف کا جہاز فضا میں لٹکا رہا دو سو انسانی جانیں بھی اس میں موجود تھی اس طیارہ سازش کیس کا زمہ دار کئی بارملک کا وزیراعظم بنا اورملک رکا نہیں چلتارہا اور پھر سپریم کورٹ پرحملہ ہوا عالمی سطح پرملکی بدنامی کے بعد بھی تو ملک چل ہی رہاہے نا تو پھر ضروری ہے کہ معاشی استحکام لانے کے لیے اس نو مئی کے سانحے کوبھی بھلاکر آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ جوڈیشل کمیشن اگر حقائق ایمانداری سے لایا تو کچھ اور ہی سانحات نہ جنم لے جائیں خدارا ملک کا سوچیں اور آگے بڑھیں ملک کے حالات بدل نہیں رہے۔

ماضی سے کوئی سبق سیکھا نہیں جا رہا، ڈیل کرنے والے اور ڈیل کے طلب گار سب اپنا اپنا ذاتی مفاد دیکھ رہے ہیں ملک کی طرف شایدکوئی بھی نہیں دیکھ رہاہے اس ڈیل اور ڈھیل میں خان کا موقف اب واضح ہے، یعنی ان پر جو مقدمات بنائے گئے اور نو مئی کے بعد ان کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب فوج نے کروایا یعنی عمران خان الٹا یہ چاہتے ہیں کہ اس غلطی کو اگر تسلیم کیا جائے تو وہ بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اس کے برعکس اسٹیبلشمنٹ کا بھی عمران خان سے معافی کاہی مطالبہ ہے یعنی اسٹیبلشمنٹ بھی یہ سمجھتی ہے کہ نو مئی کے واقعات کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل تحریک انصاف کی لیڈر شپ نے کیا ہے اور ان ملزمان کے لیے قطعاً کوئی معافی نہیں جو ریاست کے اوپر حملہ آور ہوئے اب ملک میں استحکام کیسے پیدا ہوگا یہ تواندازہ تو عوام خود ہی لگالے تو بہتر ہوگا بس دیکھنایہ ہے کہ معافی کون مانگتاہے کیونکہ پکچر ابھی باقی ہے۔

Related Posts