جب مغربی دارالحکومتوں کو زلزلے کا سامنا کرنا پڑا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Riayatullah Farooqi

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہم نے دو ہفتے قبل اپنے کالم میں فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کی طرف سے روس کے مقابل ٹارزن بننے کی کوششوں کا احوال تفصیل سے لکھا تھا۔ میکرون کی یہ کوششیں مغرب کے لئے چھ اور 7 مئی کو ایک بڑی شرمندگی کا باعث بنی ہیں۔ جس کی وجہ بالخصوص حالیہ دنوں کی کچھ مغربی سرگرمیاں بنیں۔

ان سرگرمیوں کی جانب آنے سے قبل ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لیجئے کہ دنیا کی مختلف اقوام مختلف کلچر رکھتی ہیں۔ چنانچہ معاملات کو دیکھنے اور ان سے نمٹنے کا انداز ہر قوم کا مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً مغربی اقوام چونکہ ایک ہی سیاسی کلچر رکھتی ہیں تو عالمی سٹیج پر ہمیں ان کی سرگرمیوں میں یکسانیت نظر آتی ہے۔

جھوٹ، فریب، وعدہ خلافی اور دھمکی ان کے سیاسی کلچر کے اہم ٹولز ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو ہم نے عرض کیا تھا کہ یوکرین کے حوالے سے روس کے ساتھ کئے گئے پانچ یورپین ممالک کے منسک ایگریمنٹ سے متعلق سابق جرمن چانسلر انجلا مرکلز نے یہ پوری ڈھٹائی سے یہ موقف اختیار کرلیا تھا کہ وہ ایگریمنٹ تو ہم نے یوکرین کو مسلح کرنے کے لئے درکار وقت کے حصول کے لئے کیا تھا۔

حالانکہ منسک ایگریمنٹ ایک امن معاہدہ تھا جس پر عمل کا یورپ پابند تھا۔روسی کلچر اس کے بالکل برعکس ہے۔ سی آئی اے کے سابق اعلی افسر رے مگورن اس ادارے میں تقریبا تیس سال سوویت و رشین امور سے وابستہ رہے ہیں۔ رے مگورن کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ سابق امریکی صدر رونالڈریگن کو سی آئی کی جانب سے روزانہ کی بریفنگ فراہم کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔

رے مگورن روسی پولیٹکل کلچر کے حوالے کہتے ہیں”عالمی منظرنامے پر سمجھنے کے لحاظ سے سب سے آسان ملک روس ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قوم صاف گوئی کی قائل ہے۔

یہ لوگ بلف نہیں کرتے۔ ان کے کسی سخت موقف کو بلف سمجھنا ایک مہلک ترین غلطی ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ گھما پھرا کر بات کرنے کے قائل ہیں اور نہ ہی چکر دینے کے۔

جو وہ کہتے ہی وہی وہ کرتے بھی ہیں۔ اس صورتحال میں روسی حکومت کو سمجھنے کا بہت ہی سادہ سا اصول یہ ہے کہ ان کی بات بغور سنئے، اور ان کے الفاظ پر اچھی طرح غور کیجئے۔ کیونکہ وہ لفظ اور اس کی معنویت کا شاندار استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے 2008ء میں امریکی سفیر کو بلا کر صاف صاف بتا دیا تھا کہ اگر یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنانے کی کوشش کی گئی تو ہم یوکرین پر حملہ کردیں گے۔ یوکرین ہماری ریڈ لائن ہے۔ چنانچہ انہوں نے کیا بھی یہی۔

اسی طرح جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر نیٹو افواج یوکرین میں داخل ہوئیں تو ہم ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے قطعا گریز نہیں کریں گے، تو اس کا سیدھا مطلب بھی یہی ہے کہ روس نیٹو سے ریگولر وارفیئر کے چکر میں نہیں پڑے گا بلکہ سیدھا ایٹمی ہتھیاروں کا ہی استعمال کرے گا۔ اگر واشنگٹن یا برسلز میں کسی نے اسے محض دھمکی سمجھا تو یوکرین میں نیٹو افواج داخل کرنے کی غلطی کرنے والے پچھتانے کے لئے زندہ نہ بچیں گے۔

جو روسی کہتے ہیں وہی کرتے ہیں”اب آیئے ان حالیہ واقعات کی جانب جو مغربی ممالک کے لئے بڑے شرمندگی کا نتیجہ لائے۔ پچھلے چند روز کے دوران ایشیا ٹائمز میں سٹیون برائن کے دو مضامین شائع ہوئے۔ ان مضامین کے مندرجات سے متعلق عالمی امور کے ماہرین کی رائے ہے کہ یہ انہیں نیٹو کی جانب سے فیڈ کئے گئے تھے۔

ان مضامین میں سٹوین نے ایک بات تو یہ لکھی کہ جو بائیڈن اگر نومبر میں دوسری ٹرم حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دوسری ٹرم میں ان کے فوری فیصلوں میں سے اہم ترین فیصلہ یہ ہوگا کہ وہ امریکی فوج کو یوکرین میں داخل ہونے کا حکم دیدیں گے۔ اور اس کا مطلب یہی ہوگا کہ پوری نیٹو یوکرین کے محاذ پر آجائے گی۔ اپنے دوسرے مضمون میں سٹیون نے لکھا فرانسیسی صدر محض دھمکیاں نہیں دے رہے بلکہ فرانس کی فوج کا غیرملکی دستہ یوکرین پہنچ چکا ہے۔

یہ بات پیش نظر رہے کہ فرانس کی فوج کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جس کی سپاہ پسماندہ ممالک کے ایسے افراد پر مشتمل ہے جو فرانس کی نیشنلٹی نہیں رکھتے۔ البتہ کمانڈر اس کے فرنچ فوج کے افسران ہی ہیں۔ سٹیون برائن کا یہ دوسرا مضمون 6 مئی کو شائع ہوا۔ اسی دن فرانسیسی صدر کا یہ مضحکہ خیز موقف بھی سامنے آیا کہ اگر یوکرین پر روسی قبضہ ہوگیا تو اس سے فرانس کی سیکیورٹی داؤ پر لگ جائے گی۔ کیونکہ یوکرین سے فرانس کی مسافت صرف پندرہ سو کلومیٹر ہے۔ یہ موقف دو لحاظ سے مضحکہ خیز ہے۔

پہلا یہ کہ فرانس اور روس کے مابین چار ممالک حائل ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ میکرون جس بلاک کا حصہ ہیں اس کا تو موقف یہ ہے کہ یوکرین میں نیٹو کا فوجی اڈہ روس کے لئے خطرہ نہ ہوگا۔ اگر میکرون کو طویل مسافت کے باؤجود روس سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے تو اسی روس کی بغل میں نیٹو بیس کی خواہش کیسے پال رکھی تھی ؟چھ مئی کو بات صرف سٹیون برائن کے مضمون اور میکرون کے مضحکہ خیز موقف تک ہی نہ رہی بلکہ امریکی ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر حکیم جیفری نے ٹی وی انٹرویو کے دوران امریکی فوج یوکرین بھیجنے کی بات کردی۔

سیاسی امور کا شعور رکھنے والے بخوبھی اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ سب محض اتفاق نہیں بلکہ باہم مربوط تھا۔ اور یہ تینوں چیزیں ایسے ماحول میں ہوئیں جب عسکری حلقوں میں یہ معاملہ بھی گرم تھا کہ 7 مئی کو روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن کی حلف برداری کے موقع پر کرائمیا کے 19 کلومیٹر طویل رسی پل کو نشانہ بنائے جانے کا امکان ہے۔ اس پل پر پہلے بھی کئی حملے ہوئے ہیں۔

مگر خبر گرم تھی کہ برطانیہ 7 مئی کو حملہ کرانے کا منصوبہ رکھتا ہے تاکہ پیوٹن کا مزہ کرکرا کیا جاسکے۔ اس امکان کو اس وقت مزید تقویت حاصل ہوگئی تھی جب برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرو نے نے پانچ روز قبل یوکرین کے دارالحکومت میں کہا “ہماری طرف سے یوکرین کو اجازت ہے کہ وہ روس کے اندرحملے کے لئے ہمارے ہتھیار استعمال کرسکتا ہے” کیمرون کا یہ بیان عالمی خبر رساں ایجنسی رائٹر نے جاری کیا تھا۔ مگر ایک گھنٹے بعد اسے اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا تھا۔باور کیا جاتا ہے یہ بیان امریکی مداخلت پر واپس ہوا۔چھ مئی کو ہی اس پوری صورتحال پر روسی ردعمل آیا اور اس شدت کا آیا کہ پورے مغرب کے ہوش ٹھکانے آگئے۔

سب سے پہلے روسی وزارت دفاع نے بیان جاری کیا کہ روسی افواج کے کمانڈر انچیف صدر ویلادیمیر پیوٹن کے حکم پر روسی فوج کے ایٹمی دستے فوری طور پر جنگی مشقیں شروع کر رہے ہیں۔ عام طور پر اس طرح کی مشقیں علامتی پیغام رکھتی ہیں۔ مگر اس بار روسی وزارت دفاع نے باقاعدہ بتایا کہ ان مشقوں کا تعلق مغرب سے آنے والی حالیہ خبروں سے ہے۔ ان مشقوں کی اہمیت یہ ہے کہ روس یہ پہلے ہی نیٹو پر واضح کرچکا ہے کہ یوکرین میں نیٹو افواج کے قدم رکھتے ہی ہم جواب ایٹمی حملے سے دیں گے۔

روسی وزارت دفاع کے بیان کے کچھ دیر بعد صدر پیوٹن کے ترجمان دیمتری پیسکاف کا ردعمل آیا کہ ہم مغرب سے آنے والی خبروں اور بیانات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ اگر یہ سب درست نکلا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیٹو ممالک دنیا کو بڑی تباہی سے دوچار کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد روسی دفتر خارجہ نے فرانس اور برطانیہ کے سفیروں کو فوری طلب کرلیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ سفیر وہاں 35 منٹ رہے، اور واپسی پر بہت افراتفری میں نظر آئے۔

اس کے ایک گھنٹے کے اندر اندر اہم مغربی دارلحکومتوں میں خوف کی کیفیت انتہائی واضح نظر آنی شروع ہوگئی۔اب آپ ذرا یہ دیکھئے کہ روس نے طلب صرف فرانسیسی اور برطانوی سفیروں کو کیا تھا مگر توبہ کی صدائیں کس کس دارلحکومت سے گونجیں۔ سب سے پہلے اٹلی کے دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا کہ ان کے ملک نے نہ تو فوج یوکرین بھیجی ہے اور نہ ہی اس کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس کے بعد پولینڈ کے دفتر کارجہ نے بھی اسی طرح کا بیان جاری کیا اور ماسکو کو یقین دہانی کرائی کہ ان کا بھی اپنی فوج یوکرین بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ حالانکہ پولینڈ کی فوج یوکرین میں غیر علانہ طور پر دو سال سے موجود ہے مگر نیٹو کے پلیٹ فارم سے نہیں۔ ابھی دو ہفتے قبل ہی روس کے ایک میزائل حملے میں پولینڈ کا جنرل مارا گیا ہے۔ جس کے حوالے پولینڈ کا موقف یہ ہے کہ وہ طبعی موت مرا ہے۔

سب سے اونچی توبہ میکرون کی ثابت ہوئی۔ میکرون نے وہ کچھ بھی تسلیم کیا جس کا روس نے مطالبہ ہی نہ کیا تھا۔ پیرس کے الیزے پیلس سے کہا گیا”یہ خبر بالکل جھوٹ ہے کہ ہماری فوج کا غیر ملکی دستہ یوکرین پہنچ چکا ہے۔ ہم نے اپنی فوج وہاں بھیجی ہے اور نہ ہی بھیجیں گے۔

ہم ویلادیمیر پیوٹن کو روس کا جائز حکمران تسلیم کرتے ہیں۔ اور ان کی تقریب حلف برداری میں ہمارا سفیر بھی شرکت کرے گا”ہوا بھی یہی۔ امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور پولینڈ وغیرہ کے سفیر تو پیوٹن کی تقریب حلف برداری میں شریک نہ ہوئے مگر فرانسیسی سفیر اس تقریب میں موجود تھے۔ ذرا تصور کیجئے یہ اسی میکرون کا سفیر تھا جو صرف 24 گھنٹے قبل تک ڈینگیں مار رہا تھا۔

ہم نیٹو اور یورپین یونین کو “انکل سام اور چالیس چور” مانتے ہیں۔ توبہ کی اس قطار میں سب سے آخر میں انکل سام بھی شریک ہوئے۔ امریکی دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا کہ ہمارا اپنی فوج یوکرین بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان نمائندے حکیم جیفری کے بیان سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ مزید فرمایا گیا کہ ہم ویلادیمیر پیوٹن کو روس کا جائز حکمران تسلیم کرتے ہیں اور ماسکو میں رجیم چینج کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

بات یہیں ختم نہ ہوئی بلکہ روسی وزارت خارجہ نے فرانسیسی و برطانوی سفراء کی طلبی اور ان سے ہونے والی بات چیت کے حوالے سے ہینڈآؤٹ بھی جاری کیا ۔ جس میں سب سے اہم برطانوی سفیر کو دی گئی روسی دھمکی ہے۔ ہینڈ آؤٹ میں بتایا گیا “برطانوی سفیر پر واضح کیا گیا کہ اگر روس کے اندر حملے کے لئے برطانوی ہتھیار استعمال ہوئے تو ہم ردعمل صرف یوکرین میں نہیں دیں گے۔

یوکرین کے پار حملہ کریں گے۔ روسی صحافیوں کا کہنا ہے کہ برطانوی سفیر کو صاف صاف بتایا گیا ہے کہ کرائمیا کے پل پر حملے کے لئے برطانیہ کے سڑوم شیڈو میزائل استعمال ہوئے تو ہم برطانوی سرزمین کو ہی نشانہ بنائیں گے۔برطانیہ دفترخارجہ کو تو سانپ سونگھا ہوا ہے البتہ ایک برطانوی اخبار نے مضمون شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حکام کہتے ہیں سٹیلائٹ پکچرز سے واضح ہے کہ کرائمیا برج کا کوئی فوجی استعمال نہیں ہو رہا اس پر حملہ غلط ہوگا۔ سمجھنا دشوار نہیں کہ یہ مضمون توبہ مہم میں برطانوی شرکت ہی ہے۔

Related Posts