امریکی عدالتیں اور سیاسی انتقام

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امریکہ میں یہ صدارتی انتخاب کا سال ہے۔ اس انتخاب میں ابھی پورے 9 ماہ باقی ہیں لیکن صورتحال ابھی اس قدر سرگرم ہے جیسے یہ انتخاب اسی ماہ ہونا ہو۔ آپ کوئی بھی امریکی نیوز چینل ٹیون کر لیجئے، آپ کو صدارتی الیکشن ہی زیر بحث ملے گا۔

اس کی کچھ اہم داخلی اور خارجی وجوہات ہیں۔ 2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ منتخب ہوئے تو اس انتخاب کو امریکی اسٹیبلیشمنٹ نے قبول نہیں کیا۔ ٹرمپ کی بعد از انتخاب راہ روکنے کے لئے پانچ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ ان سے ملے اور کہا کہ ”روسی صدر ویلادی میر پیوٹن کے پاس آپ کی کچھ نازیبا ویڈیوز ہیں۔ لہٰذا آپ کو صدارت کا عہدہ نہیں سنبھالنا چاہئے۔“ اور یہ محض الزام نہیں بلکہ خود لبرل چینلز کی بنائی ڈاکومنٹریز میں بیان کی گئی حقیقت ہے۔ جس کی تردید کہیں سے نہیں آئی۔

یہی وہ میٹنگ تھی جس کے ردعمل میں ٹرمپ اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف صف آراء ہوئے۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نہ مانی تو نتیجہ یہ نکلا کہ ٹرمپ کی حلف برداری والے روز امریکہ میں لبرلز نے پرتشدد مظاہرے کئے۔ جلاؤ گھیراؤ والی یہ صورتحال ان لبرلز نے ہی پیدا کی جو دنیا بھر میں جمہوریت کے سب سے بڑے مامے بنتے ہیں۔باقی دنیا کو تو یہ تلقین کرتے آئے تھے کہ انتخابی نتیجہ خوش اسلوبی سے قبول کرنا چاہئے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب یہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ شرم کی بات یہ کہ اس معاملے میں لبرلز اپنی اسٹیبلیشمنٹ کے آلہ کار بن گئے۔ اور وہ بھی اس حد تک کہ یہ مؤقف اختیار کرلیا کہ روسی صدر پیوٹن نے ہمارے الیکشن میں دھاندلی کرکے ٹرمپ کو جتوایا ہے۔

یہ مؤقف اس ملک کے لبرلز کا ہے جو دنیا بھر میں ڈھول ہی یہ پیٹتے آئے ہیں کہ ہمارا ملک انسانی تاریخ کا سب سے طاقتور، سب سے ترقی یافتہ اور سب سے محفوظ ملک ہے۔ سو اگر پیوٹن 2016ء کے امریکی صدارتی انتخاب پر یوں اثرانداز ہوئے کہ سرے سے کوئی روسی ایجنٹ ہی امریکہ میں سرگرم نہ تھا۔ اور نہ ہی کوئی روسی اس جرم میں گرفتار ہوا تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پیوٹن نے یہ سب ماسکو میں بیٹھے بیٹھے کرلیا۔ تو پھر طاقتور کون ہوا؟ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ کہ ٹرمپ اور روسیوں کے مابین اشتراک کی باقاعدہ اعلیٰ سطحی تحقیقات کا ڈرامہ رچا کر دنیا بھر میں اپنا تماشا کھڑا کروایا گیا۔ اور نتیجہ بھی ان  تحقیقات کا یہ نکلا کہ کوئی اشتراک نہ پایا جاسکا۔ لیکن مؤقف آج بھی لبرلز کا یہی ہے کہ ٹرمپ کو پیوٹن نے جتوایا تھا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ جب 2020ء کا صدارتی الیکشن ہوا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے دھاندلی کا الزام لگا دیا اور نتائج قبول کرنے سے انکار کردیا۔ دلچسپ بات یہ کہ ٹرمپ کے مؤقف کا ایک جزو تو وہی رہا جو ہمارے ہمارے ہاں پایا جاتا ہے کہ مرے ہوئے لوگوں نے بھی جوبائیڈن کو ووٹ ڈالے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسی ماحول میں پھر 6 جنوری کو کیپٹل ہل پر عوامی حملے والا واقعہ ہوا۔ اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس حملے کو پچھلے 4 سال سے لبرل نیوز چینلز ہی نہیں بلکہ لبرل سیاستدان بھی بغاوت کہتے آرہے ہیں لیکن بغاوت کے جرم میں امریکہ میں کسی بھی شخص پر کوئی مقدمہ چلا اور نہ ہی چل رہا ہے، گویا یہ محض زبانی جمع خرچ ہے۔

سچ پوچھئے تو ہم نے ٹرمپ کے دھاندلی والے الزام کو قبول نہیں کیا تھا۔ ہمارا تأثر یہی تھا کہ ٹرمپ بس اپنا بدلہ لے رہا تھا کہ انہوں نے میرا انتخاب قبول نہیں کیا تھا، میں بھی ان کا انتخاب قبول نہیں کرتا۔ لیکن پچھلے ایک سال کے دوران جو کچھ وہاں ہوا ہے وہ بلا شک و شبہ آنے والے صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے کی لبرل کوشش ہے۔ اور یہ کوشش اتنی حیران کن ہے کہ یقین کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ امریکہ میں ہی ہو رہا ہے۔ امریکہ کی پوری تاریخ میں پہلی بار کسی سابق صدر کے خلاف مقدمات قائم ہوگئے۔ اگر ایک آدھ مقدمہ ہوتا تو باور کر لیا جاتا کہ شاید پہلی بار کسی سابق صدر کا کوئی جرم سامنے آگیا ہے لیکن مختلف ریاستوں میں قائم ہونے والے ان کئی مقدمات میں مجموعی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ پر 90 سے زائد الزامات لگائے گئے اور یہ کیسز وہاں چل رہے ہیں۔

آپ صرف اس ایک کیس سے ہی اندازہ لگا لیجئے جس کا فیصلہ بھی ٹرمپ کے خلاف آچکا کہ یہ کیسز کس قدر مضحکہ خیز ہیں۔ نیویارک کی اٹارنی جنرل لتیشہ جیمز نے ٹرمپ پر اس الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا کہ انہوں نے ڈوئچے بینک سے قرض لینے کیلئے اپنی فلوریڈا والی جائیداد کی مالیت زیادہ بتائی تھی۔ اس پر بینک کا ردِعمل آیا کہ مالیت ٹھیک بتائی گئی تھی اور ٹرمپ نے ہم سے جو قرض لیا تھا، وہ سود سمیت واپس بھی وقت سے پہلے کردیا تھا۔ لہٰذا یہ کیس نہیں بنتا۔ اور یہ کہ ہم تو مسٹر ٹرمپ سے اتنے مطمئن ہیں کہ آئندہ بھی انہیں بخوشی قرض دیں گے لیکن اٹارنی جنرل ہی نہیں بلکہ جج نے بھی کہا کہ ”نہیں مقدمہ تو چلے گا۔“ شرمناک بات یہ کہ جج نے ٹرمپ کی اس وسیع و عریض جائیداد کے متعلق فیصلہ دیا کہ اس کی مالیت 18 ملین ڈالرز سے زیادہ نہیں۔ جبکہ امریکہ کے نامی گرامی سٹیٹ ڈیویلپرز قرار دے چکے کہ یہ 200 ملین ڈالرز سے زائد مالیت کی جائیداد ہے۔

خلاصہ یہ کہ ٹرمپ پر اس مقدمے میں تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ 364 ملین ڈالرز کی صورت عائد کردیا گیا۔ صرف سزا کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ پورے کیس کے دوران جج گویا چیختی چلاتی زبانِ حال سے پکارتے رہے کہ میں جج تو امریکہ کا ہوں لیکن میری روح پاکستانی ججز والی ہے۔ یوں امریکی مین سٹریم ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اس جج کا وہی حال ہو رہا ہے جو نواز شریف کے خلاف قائم مقدمات سننے والے ”فیض یافتہ“ ججز کا آج بھی ہوتا ہے۔ اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ یہ جج کسی کے اشارے پر چل رہا تھا۔اس طرح کے اشارے ہر ملک میں ایک ہی جگہ سے ہوتے ہیں۔ امریکہ میں بھی یہ اشارے اسی جگہ سے ہوئے جہاں سے ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ اس کیس کا سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ ہر کیس میں ایک متاثرہ فریق بھی ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے خلاف قائم اس کیس میں کوئی متاثرہ فریق ہی سرے سے نہ تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر قائم بہت سے کیسز میں سے ایک کیس ریاست جارجیا کی ایک کاؤنٹی میں بھی چل رہا ہے۔ یہ کیس اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کیس میں ٹرمپ کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمہ چلا جایا رہا ہے جو صرف آرگنائزڈ کرائم یعنی مافیاؤں کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے ٹرمپ کے ساتھ لگ بھگ ڈیڑھ درجن شریک ملزمان کا بھی ”انتظام“ کرلیا گیا ہے۔ مگر اس کیس میں آج کل لبرلز کو بڑی شرمساری کا سامنا ہے۔ اس کیس کی روح رواں ڈسٹرکٹ اٹارنی فانی ویلس ہیں۔ یہ خاتون باقاعدہ پاکستانی سیاستدانوں کی طرح ٹرمپ کے خلاف بیان بازیاں بھی کرتی رہیں جو امریکی نظام قانون کے مزاج کے ہی خلاف بات ہے۔ یہ خاتون اپنی ذات سے اتنی متاثر ہیں کہ کیس کے آغاز پر اپنا ایک فوٹو سیشن بھی کروالیا جس میں گتے ڈبوں کے انبار کے ساتھ مختلف پوز دیتی نظر آئیں۔ محترمہ کا فرمانا ہے کہ یہ سب ٹرمپ کے خلاف دستیاب ثبوت ہیں۔ یہ ڈبے دیکھ کر ہمیں تو پاکستانی جے آئی ٹی والے والیم یاد آگئے جو گتے کے ڈبوں میں ہی ٹرالیوں کی مدد سے عدالت لائے گئے تھے۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا تھا کہ کیس پاناما کا تھا اور فیصلہ اقامے پر آیا تھا۔

ٹرمپ کی ٹیم اس کیس کے پراسیکیوٹر نیتھن ویڈ کا سکینڈل سامنے لے آئی ہے۔ اور سکینڈل بھی ایسا جس میں خود فانی ویلس ہی اصل کردار ہیں۔ انکشاف ہوا ہے کہ فانی ویلس نے یہ کیس جس نیتھن ویڈ کے سپرد کیا ہے اسے لاء ڈپارٹمنٹ میں فانی ویلس ہی لائی ہیں اور اس سے ان کے جنسی تعلقات ہیں۔ جارجیا کی ایک عدالت میں اس حوالے کیس بھی چل چکا جس کا فیصلہ اگلے ہفتے آنے والا ہے۔ کیس کے دوران فانی ویلس کا مؤقف یہ رہا کہ یہ معاشقہ نیتھن ویڈ کی تعیناتی کے بعد شروع ہوا ہے۔ جبکہ ٹرمپ کے وکلاء گواہوں اور فون ریکارڈز کی مدد سے ثابت کرچکے کہ یہ معاشقہ 2019ء سے چل رہا ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ اگلے ہفتے فانی ویلس ہی نہیں بلکہ ان کی پوری ٹیم کو عدالت اڑا دے گی۔

ایک نہایت قابلِ غور بات یہ ہے کہ امریکی آئین کسی سزا یافتہ شخص کے صدر بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ اور صورتحال یہ ہے کہ مختلف اوقات میں ڈونلڈ ٹرمپ پر قائم ہونے والے ان مقدمات میں سے ہر مقدمہ قائم ہوتے ہی ٹرمپ کی مقبولیت نئی بلندی اختیار کرتی رہی ہے۔ کیونکہ امریکی رائے عامہ اس پوری کمپین کو ”سیاسی مقدمات“ کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ یوں ہر مقدمے نے ٹرمپ کو صدارت کے مزید قریب کیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سزا یافتہ شخص کے صدر بننے پر کوئی پابندی نہیں۔ اور ٹرمپ کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے تو پھر ان مقدمات کا مقصد کیا ہے؟ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان مقدمات کی سماعت جون سے تیزی اختیار کرلے گی۔ ان میں سے بیشتر کیسز ایسے ہیں جن میں ملزم کا ہر سماعت پر عدالت میں موجود ہونا ضروری ہے۔ اور جون تا نومبر ہی صدارتی انتخابی مہم کا پیک ٹائم ہے۔ سو لبرلز کا پلان یہ ہے کہ ٹرمپ کو عدالتوں میں انگیج رکھ کر کمپین سے دور رکھا جائے۔

ہم پچھلے سات آٹھ سال سے یہ بات کئی کالمز میں واضح کرچکے کہ امریکی نظام اپنے زوال کے دور میں ہے۔ چنانچہ یہ اس زوال کا ہی ایک بڑا اظہاریہ ہے کہ اب امریکہ میں بھی سیاسی مخالفین کے خلاف وہی ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ہی شناخت ہوا کرتے تھے۔ اب امریکہ میں بھی مخالفین پر نہ صرف یہ کہ سیاسی مقدمات قائم ہوتے ہیں بلکہ ان مقدمات کی سماعت کیلئے فیض یافتہ ججز بھی دستیاب ہیں۔ اب امریکہ میں بھی سیاسی مخالف پر بغاوت اور غداری کے الزامات اس کے باوجود لگائے جاتے ہیں کہ اس جرم میں عدالتی کیس کوئی نہیں ہوتا۔ اب امریکہ میں بھی صورتحال یہ ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں سیاسی مخالف کو یہودیوں کا ایجنٹ کہا جاتا ہے بعینہ وہاں سیاسی مخالفین کو پیوٹن کا ایجنٹ پکارا جاتا ہے۔ ہمارا لنڈا بازار پچھلے 30 سال سے یہ کہہ رہا تھا کہ ہم امریکیوں کی طرح کیوں نہیں بنتے؟ اور ہم ان کی یہ حسرت پوری کرنے پر خود کو آمادہ نہ کرسکے۔ شاید اسی لئے لبرلزم کی جنم بھومی نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر پاکستانی ہم جیسے نہیں بنتے تو چلو ہم پاکستانیوں جیسے بن لیتے ہیں۔

Related Posts