امارات کی اسرائیل سے دوستی اور ترکی سے مخاصمت مسلم امہ کی تقسیم کا سبب نہ بن جائے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد مسلم امہ میں واضح تقسیم مزید ابھر کر سامنے آئی ہے، 13 اگست 2020 ء کو امارات اسرائیل دوستی کے بعد امارات اور ترکی کے تعلقات میں خلیج بڑھتی جارہی ہے۔

متحدہ امارات ایک طرف اسرائیل کے ساتھ تجارتی معاہدوں  کو حتمی شکل دے رہا ہے تو دوسری جانب ترکی کیخلاف اقوام متحدہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹا رہا ہے جس سے مسلم امہ میں پائی جانیوالی بے چینی مزید بڑھ رہی ہے۔

متحدہ عرب امارات نے امن معاہدے کے بعد اسرائیل کے بائیکاٹ سے متعلق قانونی شق منسوخ کردی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت اور تجارتی معاہدوں کی راہ ہموار ہوگی ۔دونوں ممالک کے درمیان ابتدائی طور پر سالانہ تجارت کا تخمینہ 4ارب ڈالر تک لگایا جارہا ہے جس میں  بتدریج اضافے کا امکان ہے ۔

متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ خلیفہ بن زاید النہیان نے اسرائیل کے بائیکاٹ و سزاؤں سے متعلق قانون کو ختم کرنے کا فرمان جاری کردیا ہے، اب امارات کی کمپنیاں اور تاجر اسرائیل میں مقیم فرموں یا کاروباری طبقے سے معاہدے کر سکتے ہیںجبکہ اسرائیلی وفد تاریخ میں پہلی مرتبہ براہ راست پرواز ابوظہبی کا سفر کریں گے۔

متحدہ عرب امارات ایک طرف اسرائیل کے ساتھ دوستی کو فروغ دے رہا ہے تو دوسری جانب ایک بااثر مسلم ملک ترکی کے ساتھ مخاصمت کو بھی بڑھاوا دے رہا ہے، امارات نے خطے میں ترکی کی مداخلت کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت کرتے ہوئے انقرہ پر عرب ممالک میں افراتفری پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے۔

امارات نے اقوام متحدہ کو لکھے گئے مکتوب میں ترکی پر عرب ممالک میں انتشار پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے اور شام اور عرب میں ترکی کی جانب سے ہونیوالی انسانی حقوق کی پامالیوں اور ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی ترکی نے باضابطہ مذمت اور مخالفت کی ہے اور ترکی نے امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کرنے تک کی دھمکی دے دی ہے ، ترکی امارات اسرائیل امن معاہدے کو فلسطین کاز کیلئے زہر قاتل سمجھتے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات اسرائیل سے اپنی شرائط پر معاہدہ کرنے کا راگ الاپ رہا ہے۔

اسرائیل اور خلیجی ممالک کے درمیان پس پردہ تعاون کئی سال سے چل رہا تھا جبکہ اسرائیل امارات تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان واضح طور پر ایک بہت بڑی تبدیلی تھی جس پر مسلم امہ میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے اور امارات اسرائیل کے ساتھ نئے رشتے کے فوائد اجاگرکرنے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔

امارات کا اصرار ہے کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ عرب اردن کے مقبوضہ علاقوں کواسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبوں کو ختم کرنے کی شرط پر معاہدہ کیا ہے لیکن اس پر بھی ابہام پایا جاتا ہے کہ کیا متحدہ عرب امارات کی اتنی بساط ہے کہ وہ مقبوضہ علاقوں کواسرائیل میں شامل کرنے سے روک سکے۔

پوری دنیا اس وقت متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کو دونوں ممالک کے مفادات سے جوڑ رہی ہے جبکہ اس معاہدے سے مسلم امہ میں تقسیم مزید بڑھ گئی ہے اور ترکی اور امارات کے درمیان سرد جنگ میں اضافہ دونوں ممالک کو کوئی فائدہ دینے کے بجائے امہ کی تقسیم کا سبب بن رہا ہے۔

جہاں کچھ مسلم ممالک عرب ریاستوں کے زیر اثر ہیں وہیں کئی ممالک ترکی کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں اور اب امارات اور ترکی کے درمیان بڑھتے تنازعات مسلم امہ کو مزید تقسیم کرنے کا سبب بنیں گے جس سے اسرائیل اور اسلام مخالف دیگر قوتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔

Related Posts