زہریلی آلودگی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ماحولیاتی آلودگی کے خلاف پاکستان کی جدوجہد شہری ترقی، صنعت کاری اور ماحولیاتی نگرانی کی طویل داستان ہے۔ تاہم ٹھوس کوششوں کے باوجود بد قسمتی سے پاکستان 2023 میں اسموگ زدہ ممالک میں سر فہرست رہا۔
گزشتہ سال PM2.5 کی سطح خطرناک حد تک بڑھ کر 73.7 مائیکرو گرام تک پہنچ گئی، جو ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ 5 مائیکرو گرام کی حد سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ درحقیقت پاکستان صحت عامہ کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ ڈبلیو ایچ او اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا بھر میں فضائی آلودگی قدرتی ماحول کو ناقابل بیان حد تک نقصان پہنچاتی ہے، خاص طور پر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی آبادیوں کو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے صحت کے لاتعداد مسائل کا سامنا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں تقریباً 12 ملین بچوں کو صحت کے سنگین خطرات درپیش ہیں اور یہ بچے فضائی آلودگی کی سطح کو محفوظ حدوں سے چھ گنا زیادہ برداشت کر رہے ہیں، جیسا کہ یونیسیف کی ایک رپورٹ میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی پانچ سال سے کم عمر کے ہر دس میں سے ایک بچے کی جان لے رہی ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر اہم اور سنگین مسئلہ ہے اور اس کے فوری حل پر کس قدر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اسموگ میں لپٹے شہر اس ماحولیاتی بحران کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد سانس اور قلبی امراض سے متاثر ہیں۔ ذرات، بنیادی طور پر PM2.5، ایک خاموش شکاری کا کام کرتے ہیں، جن کا کوئی سائنسی حل نکلنا چاہئے۔
ایک اور قابل توجہ امر یہ ہے کہ ملک کا جغرافیہ اس صورتحال کو مزید خراب کرنے کا سبب ہے۔ پاکستان کی فضائی آلودگی کا بیانیہ صحت کے خدشات سے بالاتر ہے۔ اس ضمن میں فوری طور پر پالیسی اصلاحات، عوامی بیداری، اور بین الاقوامی تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Posts