تین منظر نامے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مشترکہ اپوزیشن نے بالآخر وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔ اگلا اجلاس 31 مارچ کو بلایا گیا ہے اس دن ووٹنگ نہیں ہو سکتی اور پہلے تقریریں کی جائیں گی۔ درحقیقت یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت کے پاس کافی تعداد نہیں ہے اور وہ ہر ممکن حد تک معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر یہ تحریک 27 مارچ کو پیش کی جاتی تو سات دن (3 اپریل) کے اندر ووٹنگ ہونی چاہیے تھی۔ حکومت 2 یا 3 اپریل کو ووٹنگ کروا سکتی ہے، تب تک ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آجائے۔ عدالتی فیصلے عام طور پر جمعہ کو سنائے جاتے ہیں جو کہ یکم اپریل ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے لیے تین ممکنہ منظرنامے ہیں۔ پہلا منظر نامہ یہ ہے کہ اگر ایوان زیریں کے 172 یا اس سے زیادہ ارکان کی حمایت سے وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد منظور ہو جاتی ہے تو وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکیں گے۔ جب وزیر اعظم کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے تو ان کی کابینہ بھی تحلیل ہو جاتی ہے۔ وزیر اعظم کو ہٹانے کے بعد، قومی اسمبلی کو فوری طور پر نئے قائد کے انتخاب کے لیے ووٹ دینا ہوگا۔

آصف زرداری کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ ایسی صورت میں شہباز شریف وزیر اعظم ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ وہ یہ سیٹ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو دینے پر راضی ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف کی آئندہ کابینہ کے حوالے سے مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کابینہ کی تشکیل اپوزیشن کے تین رہنماؤں کے اجلاس میں ہو سکتی ہے۔

وزارت داخلہ کے لیے رانا ثناء اللہ کے نام پر غور کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آصف زرداری نے ملاقات میں رانا ثنا اللہ کو وزیر داخلہ بلایا۔ بلاول بھٹو کے وزیر خارجہ بننے کی بھی خبر ہے۔ لیکن آصف زرداری فیصلہ کریں گے کہ اب بلاول کو عہدہ سنبھالنا چاہیے یا نہیں۔

کابینہ میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور دیگر چھوٹے گروپ نمائندگی کریں گے۔ اگلا فیصلہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا ہو گا۔ اس کے بعد صدر کو مواخذے کی دھمکی دی جا سکتی ہے اور مستعفی ہونے کو کہا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ سب مفروضے ہیں اور یہ منظر نامہ اسی وقت تشکیل پائے گا جب تحریک عدم اعتماد منظور ہو گی۔

اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر ایم کیو ایم اپوزیشن میں شامل نہیں ہوتی تو پھر انہیں پی ٹی آئی کے چند ناراض اراکین اسمبلی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ آئینی طور پر آئندہ چند روز میں ان منحرف ارکان کو نااہل قرار دے کر ان کے حلقوں میں ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے جس میں دو ماہ تک کا وقت لگے گا۔ اپوزیشن اس صورتحال سے پیدا ہونے والے خلا کو کیسے پُر کرے گی؟

وزیر اعظم، اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کے لیے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں کل 342 میں سے 172 ارکان کی سادہ اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟

وفاق کے بعد اگلا معرکہ پنجاب میں ہوگا، جہاں اپوزیشن اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کرانے کی کوشش کرے گی۔ اس کے لیے اپوزیشن کو ہر حال میں پی ٹی آئی کے منحرف ارکان پر انحصار کرنا ہوگا کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ہماری سیاسی روایت البتہ یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی مرکز میں ہار جاتی ہے تو پنجاب میں بھی ڈرامائی تبدیلی آئے گی۔ تاہم، یہ اب بھی ایک فرضی منظرنامہ ہے۔

دوسرا منظر نامہ یہ ہوسکتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے۔ اپوزیشن ووٹنگ کے روز 172 ارکان اسمبلی میں نہیں لا سکی۔ یہ تبھی ہو گا جب ایم کیو ایم اتحادی بن کر رہے گی اور پی ٹی آئی کے منحرف ارکان واپس آئیں گے، جس کے لیے چوہدری پرویز الٰہی سرگرم ہیں۔

ایسی صورت میں حکومت اپوزیشن جماعتوں پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر کے کچھ ارکان کو نااہل قرار دینے کی کوشش کرے گی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ بعض منحرف ارکان کا ’’ضمیر‘‘ دوبارہ جاگ جائے گا جنہوں نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا اور وہ وقت پر اسمبلی میں نہیں پہنچ پائیں گے۔  

اگر تحریک عدم اعتماد ایک ووٹ سے ناکام ہوئی تو پھر بھی ناکامی اور شکست ہوگی۔ اس معاملے میں قریبی مقابلہ معنی نہیں رکھتا۔ اس حوالے سے حکومت کے حوصلے بلند ہوں گے۔ اگلے مرحلے میں حکومت جو کھو گیا اسے بحال کرنے کی کوشش کرے گی۔ باپ سے دوبارہ بات ہو سکتی ہے، شاہ زین بگٹی سمیت بقیہ ناراض اراکین کو واپس لانے کی کوشش کی جائے گی۔

تاہم یہ واضح رہے کہ حکومتی اکثریت میں مزید کمی آئے گی۔ حکومت کے پاس پہلے ہی بمشکل دس ارکان کی اکثریت تھی، اب شاید دو تین رہ جائیں گے۔ اس سے قانون سازی میں رکاوٹ آئے گی اور بجٹ پیش ہونے کے صرف دو ماہ بعد بھی یہ ایک ڈراؤنا خواب ہو گا۔

یاد رکھیں آئینی طور پر اگر کوئی حکومت بجٹ پاس کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ فوری طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں اگلے چند ماہ میں انتخابات ہوتے ہیں۔ اگر یہ منظر نامہ تیار ہوتا ہے تو عمران خان بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے سے لے کر چند دیگر غیر معمولی عوامی فلاح و بہبود کا اعلان کر کے انتخابات میں حصہ لینا چاہیں گے۔

تیسرا منظر نامہ بھی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حکومت زیادہ اعتماد اور طاقت کے ساتھ کام کرے گی۔ یہ تب ممکن ہے جب سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دوبارہ ایک پیج پر ہوں۔ یہ بالکل ممکن ہے۔ عمران خان کو اپنی سرکشی کا احساس ہو گیا ہو گا اور چند ماہ قبل کسی حد تک باغیانہ رویہ اپنانے کی غلطی کا احساس ہوا ہو گا۔

عمران خان اب بہتر کام کریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اہم عہدے کی توسیع یا تقرری کے حوالے سے ’’سمجھدار‘‘ فیصلہ کیا جائے۔ ایسے میں یہ ممکن ہے کہ مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کے اندر ایک فارورڈ بلاک بن جائے۔ اہم مواقع پر حکومت کی حمایت کرنے یا کسی بھی نئی تحریک عدم اعتماد سے اپوزیشن جماعتوں کو روکنے کے لیے دس سے پندرہ اراکین اسمبلی موجود ہوں۔

واضح رہے کہ آئین میں ارکان اسمبلی کو پارلیمانی لیڈر کی ہدایت پر صرف تین معاملات پر ووٹ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عام حالات میں اراکین اسمبلی اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے کر نااہلی سے بچ سکتے ہیں۔

چوہدری پرویز الٰہی اپنے تازہ ترین انٹرویوز میں اگلے دو سال کی حکومت کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ اس میں اگلے سال جولائی میں اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد چار سے چھ ماہ کا عرصہ بھی شامل ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہو اور اپوزیشن اس قدر مایوس ہو جائے کہ کوئی نیا ایڈونچر شروع کرنے کے بجائے ہار مان کر بیٹھ جائے۔

یہ تیسرا منظر نامہ ہوگا، جس میں جب بھی اگلا الیکشن ہوگا، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) مل کر پنجاب میں لڑیں گے اور ن لیگ کو شکست دیں گے۔

Related Posts