تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تین سازشی تھیوریز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Three conspiracy theories

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 انگریزی کی بعض اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اس کا بالکل اسی طرح کا معنی یا تاثر پیدا نہیں ہوپاتا۔ ایسی ہی ایک اصطلاح کانسپیریسی تھیوری (Conscpracy Theory)ہے، اردو میں اس کا ترجمہ اکثر سازشی نظریات کیا جاتا ہے۔ بات مگر بنتی نہیں کیونکہ نظریہ اردو میںزیادہ وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

کانسپریسی تھیوری کو سازشی کہانی کہنا چاہیے ۔ ایسی کہانی جو نجی محفلوں میں سرگوشی کے انداز میں بیان کی جاتی ہے یا کسی کے کان میں اشارتاً کچھ بول دیا جائے۔ غلط ہو یا درست یہ تھیوری یا کہانی بہرحال دلچسپ ہوتی ہے، اس میں چونکہ سچ جھوٹ کچھ نہ کچھ ملا ہوتا ہے، اس لئے اسے بے وزن کہہ کررد بھی نہیں کر سکتے۔ البتہ تصدیق کے لئے ادھر اُدھر پوچھنے کی ضرورت پڑتی ہے ،” ہائیں کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے؟ “اکثر اوقات اس کا جواب نہیں مل پاتابلکہ اگلا ایک اور کہانی جڑ دیتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بھی کئی سازشی تھیوریزیا کہانیاں چل رہی ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کنفرم نہیں ہو پارہی۔ ویسے کنفرم ہو بھی کیسے ؟ اگر حکومت الٹنے کے منصوبے یوں آسانی سے کنفرم ہوجائیں تو پھر ایسی تحریکیں گئیں تیل لینے۔ ہم ان میں سے صرف تین کا انتخاب کرتے ہیں،آپ میں سے کچھ نے سنی ہوں گی، کچھ نے نہیں۔

پہلا منظرنامہ اپوزیشن کے حلقے پیش کرتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو عمران خان کا مخالف ہے اور خیر سے اب ان کی تعداد خاصی زیادہ ہوچکی ہے، وہ اس سازشی تھیوری کو پرکشش اور قابل عمل سمجھتا ہے۔ دراصل اس میں خبر سے زیادہ وش فل تھنکنگ یعنی ان کی خواہش کا عمل دخل زیادہ ہے۔ اس تھیوری کے مطابق ایک پیج جس پر حکومت اور مقتدر قوتیں تھیں، وہ کچھ عرصے سے پھٹ چکا۔ نوبت یہ آ گئی کہ اب بڑبولے حکومت وزرا بھی یہ دعویٰ نہیں کر رہے۔

ہمارے ایک بہت پیارے دوست ہیں، ہم دونوں آپس میں ایسی تھیوریز کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں، جو کچھ ہمارے پاس ہوتا ہے ان سے شیئر، وہ اپنی اطلاعات ہمیں سناتے ہیں۔ جدید زمانہ ہے، ایک اصطلاح اس مقصدکے لئے بن چکی ہے، نوٹس ایکسچینج یا شیئر کرنا۔ اس پہلی نوعیت کی اکثر تھیوریز ہمیں وہاں سے ملتی ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ کچھ اہم لوگوں کی اتنے ہی اہم سیاسی لوگوں سے ملاقاتیںہوچکی ہیں۔بیرون ملک ہونے والی ایک ملاقات تو باقاعدہ ڈرامائی یا افسانوی انداز سے بتائی جاتی ہے۔ اتنی ڈرامائی کہ یقین کرنے کا جی نہ کرے۔ خیر ان ملاقاتوں کے مطابق اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کا گرین سگنل مل چکا ہے۔ وڈے میاں صاحب کا اشیرباد بھی حاصل ہے اور بلکہ ان افواہوں کے مطابق وہ اپنی صحت کے حوالے سے جو چھوٹا موٹا کام کرانا ہے ، وہ کرا نے اورپھر وطن واپسی کا بھی سوچ رہے ہیں۔

اس تھیوری کے مطابق عدم اعتماد کامیاب ہوگی اور متحدہ اپوزیشن کا وزیراعظم کچھ عرصے کے لئے کام کرے گا، پھر نئے الیکشن ہوں گے ، جن میں خیر سے خان صاحب پٹ پٹا کر فارغ اوراپوزیشن کے تین سالہ رگڑا سہنے والے حکومت میں بیٹھ کر ڈھولے گائیں گے۔ خان صاحب بے شک خطرناک بننے کی کوششیں کرتے رہیں، انہیں ہینڈل کر لیا جائے گا۔ یہ منظرنامہ بتانے والے پنجاب کے بجائے مرکز میں تبدیلی پہلے لانے کا کہتے ہیں ، وجہ یہ کہ مرکز میں تبدیلی آ گئی تو پنجاب میں تو پھر اپوزیشن کے پاس بندے بٹھانے کی جگہ نہیں بچنی۔ پھر چودھری وغیرہ سب غیر متعلق اور غیر ضروری ہوجائیں گے۔

کچھ عرصہ پہلے تک اس تھیوری کو چیک کر نے کا لٹمس ٹیسٹ یہی تھا کہ اگر چوہدری، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی وغیرہ اگر حکومت سے الگ ہوجاتے ہیں تو مقتدر قوتوں کا اشیرباد حاصل ہے، ورنہ نہیں۔اب کہا جارہا ہے کہ نہیں مختلف وجوہات کی بنا پر اتحادی الگ نہیں ہوں گے ،البتہ حکومتی پارٹی کے اندر کچھ لوگ الگ ہوجائیں اور وزیراعظم کے لئے اعتماد کا ووٹ لینا ممکن نہ رہے۔البتہ اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چوہدریوں سے ہاتھ ہوگیا ہے ، وہ پنجاب میں وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے تھے، مگر اچانک ان کی ضرورت ہی ختم ہوگئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

دوسری سازشی تھیوری کے مطابق ایک پیج والی بات تو اب نہیں رہی، مگر امپائر حضرات اس بار کسی ایک فریق کی طرف نظر کرم کرنے کے بجائے نیوٹرل رہیں گے۔ انہوں نے حکومت کو کہہ دیا ہے کہ جاگدے رہنا سارے تے نہ رہنا۔ اپوزیشن کو بھی کہا گیا ہے کہ کچھ کر سکتے ہو تو خود کرو، ساڈے ول نہ تَک سجنا۔ اس تھیوری والے بتاتے ہیں کہ اسی وجہ سے اپوزیشن اب انفرادی طور پر رابطے کر رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کا بیان کہ ہم اب افراد سے بھی رابطے کریں گے، اسی تبدیل شدہ اپروچ کو ظاہر کر رہا ہے۔

یہ دوسری تھیوری اگر درست نکلے تو پھر حکومت اور اپوزیشن کے جوڑ توڑ کا مقابلہ ہے، جس نے جتنے بندے توڑ لئے وہ جیت گیا۔ اپوزیشن کو فائدہ یہ ہے کہ ان کے پاس آصف زرداری جیسا گرگ باراں دیدہ موجود ہے جو ایسے جوڑ توڑ، لینے دینے کی سیاست کا ماہرہے، ن لیگ کے پاس بھی کاریگر لوگ موجود ہیں جو ارکان اسمبلی کو جانتے اور انہیں اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں۔ ایک فیکٹر یہ بھی اہم ہے کہ پنجا ب میں ن لیگ کا ٹکٹ اہم ہے، کچھ حکومتی ارکان اسمبلی ایسے ہوسکتے ہیں جو ن لیگ کے پارٹی ٹکٹ اور کچھ ”پیار محبت “کے بعد راضی ہوجائیں۔ حکومت اپنی طرف سے جوڑ توڑ کرے گی، ان کے پاس وسائل ہیں اور حکومتوں کے خلاف تحریک عدم اعتماد آسانی سے کبھی منظور نہیں ہوپاتی۔ عمران خان کو البتہ جہانگیر ترین جیسے بندے کی شدید کمی محسوس ہوگی، پنجاب میں وہ عبدالعلیم خان سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔بہرحال تیسری قوت کے غیرجانبدار ہونے کی صورت میں تو کھینچا تانی اور باقاعدہ کشمکش ہوگی۔

تیسری تھیوری ان دونوں کے برعکس ہے۔ اس کے مطابق اپوزیشن کے پاس” کجھ وی نہیں، ان تلوں میں تیل نہیں وغیرہ وغیرہ۔ “ان کے خیال میں ایک پیج والے معاملے میں تھوڑے بہت مسائل آئے تھے، مگر اب وہ ٹھیک ہوگئے۔ قومی معیشت اور عالمی حالات ایسے نہیں کہ پاکستان میں حکومت گرے اور نہ ہی ایسا ہونے دیا جائے گا۔ اپوزیشن صرف دباؤ ڈالنے اور حکومت کو کنفیوز کرنے کے لئے ایسا کر رہی ہے۔ساڈا وزیراعظم تگڑا اے ، وہ اپنی مدت پوری کرے گا بلکہ الیکشن بھی جیتے گا ، وغیرہ وغیرہ۔ظاہر ہے یہ تھیوری تحریک انصاف کے حامیوں کی ہے، جن کے نزدیک ان کا سوہنالیڈر دنیا کا عظیم ترین انقلابی ہے۔

ارادہ تو یہی تھا کہ یہی تین تھیوریز بیان کر کے رخصت لی جائے، مگر مجھے اندیشہ ہے کہ بعض ناہنجار یہ طعنہ دینے سے باز نہیں آئیں گے کہ اپنی رائے تو دی نہیں ، ایویں ہی ہمیں بلاگ پڑھوا ڈالا۔ حالانکہ اسے پڑھنے میں آپ کا ٹکا نہیں لگا، برائے نام انٹرنیٹ اور احسان مفت کا۔ چلیں میں اپنی رائے بتا دیتا ہوں۔

میرے خیال میں تحریک عدم اعتماد اس بار بہت سنجیدہ موو ہے، اسے ہرگزدھوکہ یا چال نہ سمجھا جائے

وزیراعظم عمران خان کو اگر اقتدار میں مزید رہنا ہے تو اسے مقتدر قوتوں کے ساتھ معاملات ازسرنو طے کرنا پڑیں گے۔

امپائرز اگر غیر جانبدار رہے اور یہ” اگر“ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، کیونکہ پاکستانی سٹائل کی کرکٹ میں امپائر غیر جانبدار نہیں رہتے، کسی ایک ٹیم کی طرفداری کرتے ہیں۔

ایم کیو ایم یا چوہدریوں کا کسی بھی مرحلے پر اپوزیشن کے ساتھ ملنا ایک خاص تاثر کو پیدا کرے گا۔

سب سے اہم اور فیصلہ کن بات یہ کہ اگر تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش کی گئی تو یقینی طور پر حقیقی پاور کوریڈورز سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہوگی، ورنہ پیش ہی نہیں کی جائے گی اور صرف دباؤ بڑھایا جاتا رہے گا۔

اس لئے کہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف پہلے عدم اعتماد کے موقع پر اور حال ہی میں چیئرمین سینیٹ کے الیکشن پر آزما کر دیکھ لیا ہے کہ وہ جس قدر مرضی جوڑ توڑ کر لیں، فیصلہ کن قوت کوئی اور ثابت ہوتی ہے۔اس بار اپوزیشن رسوا نہیں ہونا چاہے گی۔

عمران خان کے ہاتھ سے ابھی سب کچھ نکلا نہیں۔ ایک فیصلہ کن ملاقات، بعض وعدے وعید اس کے مسائل حل کرسکتے ہیں البتہ بلاوجہ کی انا کا اسیر ہونااس کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔ سیاست انا نہیں سمجھوتوں،کچھ لینے، کچھ دینے کا نام ہے۔

ایک آخری بات جس کا تعلق کسی سازشی تھیوری یا تجزیوں سے نہیں،پیش گوئی سے ہے۔ ایک سے زیادہ روحانی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ خان اپنی مدت پوری کرے گا،کہا جارہا ہے کہ ایسا کچھ ہوجائے گا کہ یہ بچ نکلے گا۔ واللہ اعلم باالصواب ۔

Related Posts