کامیابی کا تیسرا اصول

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اکثر اوقات ہمارے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو ایک جیسی صورتحال کا سامنا ہونے کے باوجود کچھ لوگ کامیاب اور کچھ لوگ ناکام کیوں ہوجاتے ہیں۔ کہیں اس فرق کی وجہ قسمت کی دیوی کو گردانا جاتا ہے تو کہیں جہد مسلسل کو اس کی وجہ قرار دیا جاتا ہے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو ان دونوں عوامل کے ساتھ ایک اور تیسرا اور اہم عمل کار فرما ہوتا ہے۔

یہ کیا عمل ہے یہ بتانے سے پہلے میں ایک ریسٹورنٹ میں ہونیوالے ایک واقعہ کا احوال بتاتا ہوں۔اس واقعہ کا راوی مشہور مشروب ساز کمپنی کوکا کولا کاسابقہ چیف ایگزیکٹوافسر ہے ، وہ اس واقعہ کے بارے میں یوں بیان کرتے ہیں کہ میں ایک ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا کھانے کیلئے موجود تھا اور بہت سارے خواتین و حضرات میرے آس پاس کھانا تناول فرمارہے تھے کہ اچانک مجھے چیخ و پکار سنائی دی۔

کیا دیکھتا ہوں کے کچھ لوگ ایک میز کے گرد کھڑے ہیں اور ایک خاتون جسکی عمر لگ بھگ 35 سال کے قریب ہوگی، زور سے چیخ رہی ہے اور ہیجانی کیفیت میں ہاتھ پاؤں چلا رہی ہے۔

اس کی اس حرکت کی وجہ سے جہاں قریب کی میزوں سے برتن گرگئے وہیں کچھ لوگ زخمی ہوتےہوتے بچ گئے۔راوی کہتا ہے کہ میں اپنی کرسی کے پاس کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ اسی اثناء میں ایک بیرہ بھاگتا ہوا آیا اور کھڑے ہوکر اس خاتون کی طرف دیکھا جو شدید ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھی۔

بیرہ اس خاتون کو دیکھ کر صورتحال کو سمجھ گیا، دراصل اس خاتون کے کندھے پر ایک لال بیگ کہیں سے اڑ کر بیٹھ گیا اور وہ ڈر کی وجہ سے ادھر ادھر بھاگ کر اس سے چھٹکارا پانا چا رہی تھی۔ ویٹر نےچند سیکنڈ کے توقف کے بعد نہایت آرام سے اپنا دایاں ہاتھ اس خاتون کے کندھے کی طرف بڑھایا اور لال بیگ کودونوں انگلیوں سے پکڑ کر باہر پھینکنے چلا گیااور ایک لمحے میں صورتحال دوبارہ پرسکون ہوگئی۔

راوی کہتا ہیے کہ اس چھوٹے سے واقعہ نے میرے ذہن میں الجھی ہوئی ایک اہم گتھی سلجھادی اور وہ گتھی یہ تھی کہ جب بہت سارے افراد کو ایک طرح کی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے تو ہر شخص کیلئے اس کا حاصل مختلف کیوں ہوتا ہے چونکہ ہر شخص کا ردعمل مختلف ہوتا ہے اس لئے اس کا نتیجہ بھی مختلف نکلتا ہے۔

ہم ایک صورتحال کو کس طرح سمجھتے ہیں اور ایکشن لیتے ہیں اس ضمن میں دو طرح کے آپشنزموجود ہوتے ہیں پہلا، کسی بھی صورتحال کا فوری جذباتی ردعمل(reaction) ، دوسرا کسی بھی مسئلے کا ایک عقلی ردعمل ہوتا ہے(response) ۔

بیشتر اوقات جذباتی ردعمل کے تحت کئے جانیوالے فیصلے غلط ثابت ہوتے ہیں ۔ریسٹورنٹ میں خاتون کا لال بیگ کو دیکھ کر شور و غل کرنا ایک جذباتی ردعمل تھا کیونکہ اس خاتون نے صورتحال کا درست ادراک کئے بغیر شور مچانا شروع کردیا تھا جس کا نتیجہ نقصان کے علاو ہ کچھ نہیں ہوسکتا تھا جبکہ اس کے برعکس بیرے کا عمل عقلی ردعمل تھا کیونکہ اس نے صورتحال کو سمجھ کر عمل کیا اور معاملے کو حل کردیا۔

قسمت اور محنت کے علاوہ تیسری چیز جس میں کامیابی کا انحصار پنہاں ہوتا ہے وہ ہے ہمارا ردعمل (جذباتی یا عقلی) یعنی قسمت اور محنت کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ اہم چیز صورتحال کا درست ادراک کرکے عمل کرنا ہوتا ہے، ہمارے اردگرد لاکھوں ایسی مثالیں موجود ہیں جب لوگ جذباتی ردعمل کا مظاہرہ کرکے اس کے سنگین نتائج ساری زندگی بھگتتےرہتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ہمارے معاشرے میں ہونیوالے قتل کے واقعات کا تقریباً 45 فیصد فوری جذباتی ردعمل کا نتیجہ ہوتے ہیں،حاصل مضمون یہ ہے کہ اگر کسی بھی صورتحا ل کا ردعمل دینے سے پہلے چند لمحے یہ سوچ لیا جائے کہ ہمارے ردعمل کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے تو ہم اپنی فیصلہ سازی بہت حد تک درست کر سکتے ہیں۔

 جذبات چاہے خوشی کے ہوں، غم کے یا غصے کے ان میں فوری ردعمل سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ جذبات کے تابع ہونیوالا ردعمل غلط ہوسکتا ہے اور نقصان بھی ہوسکتا ہے، ہمیں صورتحال کو دیکھ کر فوری ردعمل دینے کے بجائے اپنی زندگی میں آنیوالی مشکلات اور مصائب میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی عادت اپنانا ہو گی ۔

Related Posts